محرم الحرام کے بعد تمام سیاسی جماعتیں اپنی طاقت کا بھر پور اظہار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ان میں جے یو آئی، آل پاکستان مسلم لیگ،ق لیگ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرح، جلسے، مارچ، دھرنے دینے شروع کر رہی ہیں پیپلز پارٹی یہ کام پہلے ہی شروع کر چکی ہے ان کے مقاصد میں بلاول زرداری کی تربیت، اور اپنے ووٹ بینک کو بچانا ہے اس طرح آنے والے دنوں میں سیاست میں ایک بھونچال آنے والا ہے اس سے حکومت پر پریشر بہت بڑھ جائے گا
جلسے جس کے خلاف بھی ہوں پریشر حکومت پر ہی ہو گا ، اسی طرح چھری اوپر ہو جا نیچے کٹے گا خربوزہ ہی ،تو ان جلسوں سے نقصان عوام کا ہی ہو گا ۔ان جلسوں سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچے گا ،مہنگائی بڑھے گی تو حکومت مخالف جلسوں میں عوام کی تعداد بڑھے گی لگتا ایسے ہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سوچ لیا ہے کہ مڈٹرم الیکشن ہونے جارہے ہیں ۔اس کالم میں ہم ممکنہ اتحاد جو ممکنہ الیکشن میں متوقع ہیں ان پر بات کرنا چاہتے ہیں اس سے پہلے ہم “موجودہ ملکی سیاست اور مڈٹرم الیکشن کی تیاریاں “پر ایک کالم لکھ چکے ہیں اور پھر آنے والے نئے کالم میں انتخابات کے بعد جو نتائج متوقع ہیں اس پر بھی بات کریں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ آنے والا سال الیکشن کا سال ہے ۔اس بات میں کسی حدتک سچائی ہو گی تبھی تو تمام سیاسی جماعتیں اب جلسوں کی سیاست کر رہی ہیں شائد ایم کیو ایم کا سندھ اور کشمیر حکومت سے الگ ہونا ،پاکستان پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کا جلسے کرنا، اسی وجہ سے ہو ۔الیکشن ہو او ر نئے سیاسی اتحاد نہ بنیں کیسے ممکن ہے ۔آنے والے الیکشن سے پہلے کئی نئے اتحاد وجود میں آئیں گے ۔چند ایک ممکنہ اتحاد جو وجود میں آ سکتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ایک تو تما م مسلم لیگیں ایک ہو رہی ہیں سنا ہے اس پر کام جاری ہے ۔ان کے ایک ہونے سے جناب نواز شریف کو فائدہ ہوگا یہ بات تو سامنے لکھی نظر آ رہی ہے ،اس کا مقصد آئندہ الیکشن میں حصول اقتدار بھی ہے
اسی کے لیے تو یہ سب الگ ہوئیں تھیں الگ ہو کر سب کو کسی اور پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا ،اتحاد ہی کرنا ہے تو مسلم لیگیں آپس میں کیوں نا کر لیں شائد یہ سوچ بھی رہی ہو ویسے بھی اتحاد و اتفاق میں برکت ہے ۔لیکن کیا عوامی مسلم لیگ اس اتحاد کا حصہ بنے گی ایسا ممکن نہیں لگتا ہاں اگر دیگر تمام مسلم لیگیں ،مسلم لیگ نواز شریف کے خلاف متحد ہو رہی ہیں تو ممکن ہے۔ مگر سیاست میں سب ممکن ہے کون سی مسلم لیگ کس سے اتحاد کر سکتی ہے یا ہو گا اس بارے میں تو آنے والا وقت بتائے گاچند ایک نام یہ ہیں ۔،پاکستان مسلم لیگ ن ،مسلم لیگ ق،آل پاکستان مسلم لیگ ،مسلم لیگ ض،مسلم لیگ ج ،مسلم لیگ ف۔ عوامی مسلم لیگ وغیرہ۔میرا خیال ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام مسلم لیگیں اتحاد کر لیں اور آنے والے الیکشن مل کر لڑیں۔لیکن ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحاد ایم کیو ایم سے ممکن تھا اس طرح یہ دونوں جماعتیں سندھ میں دوبارہ اکثریت حاصل کر لیتیں مگر اس وقت تو یہ جماعتیں ایک دوسرے سے الگ ہو چکی ہیں کیا یہ الیکشن کے بعد پھر ایک نا ہو جائیں گی پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ آج ایم کیو ایم الگ ہوتی رہی پاکستان پیپلز پارٹی سے اور دوسرے دن پھر صلح ہو جایا کرتی تھی ایسا نہ جانے کتنی بار پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہوا ۔اب بھی جب مفاہمت کے بادشاہ جناب آصف علی زرداری نے معاف کرنے اور ملکی مفاد میں قربانی دینے والے الطاف بھائی سے معافی مانگی اسی وقت ان میں دوبارہ اتحاد ہو جائے گا ۔مگر لگتا ہے یہ الیکشن کے بعد ہو گا ۔ اب بھی ان کی اس تازہ لڑائی کے پیچھے ہو سکتا ہے
عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہو ایک حد تک دونوں جماعتیں جو سندھ کے اقتدار کا خو د کو بلاشرکت غیر مالک سمجھتی تھیںوہ سمجھ رہی ہیں کہ ان کے لیے تحریک انصاف ایک بہت بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے اور یہ دونوں پارٹیوں کے ماضی کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ نورا کشتی ہی ہے۔ اس کے باوجود میری بات حرف آخر نہیں ہے ۔شائد اس دفعہ ان کی لڑائی نوارا کشتی نہ ہو سچ مچ عوام کے فلاح اور اپنے منشور کی پاسداری ہو اور اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا جائے ۔
Elections
اگر پاکستان تحریک انصاف ،عوامی تحریک ،ق لیگ ،وحدت المسلمین ،عوامی مسلم لیگ الیکشن میں بھی اتحاد قائم رکھتی ہیں جیساکہ اب تک ان کا اتحاد قائم ہے اور ان کے ساتھ آل پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے بھی اتحاد کر لیا تو آنے والی حکومت تحریک انصاف کی کہہ سکتے ہیں اس میں دو باتیں ایسی ہیں جو اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اول یہ کہ تحریک انصاف کا یہ خیال کہ وہ اکیلی پاکستان بھر سے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے اور دوسری جماعت اسلامی کی وہی کھلیں گے نا کھیلنے دیں گے کی پالیسی ۔جماعت نے اس پالیسی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے
اس پالیسی کی بنیاد خود کو متقی اور صالح خیال کر کے خود کو دوسروں سے اعلی خیال کرنا بھی ہے ۔اور جلسوں میںلوگوں کی شمولیت کو ووٹ خیال کرنا بھی ہے یہ خیال عوامی تحریک کو بھی آ سکتا ہے جس طرح گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کو یہی غلط فہمی ہو گئی تھی جس وجہ سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی مل کر الیکشن نہ لڑ سکیں اب اس جگہ عوامی تحریک ہے ۔ جو اسے اس اتحاد سے دور کر سکتا ہے ۔اس اتحاد کے نہ ہونے کا ایک سبب مسلکی(فتنہ)اختلاف بھی ہے ۔سنا ہے کہ ق لیگ اور عوامی تحریک نے مل کر آنے والے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس سے کچھ نہیں ہو گا ۔جب تک تحریک انصاف بھی اس اتحاد کا حصہ نہ بن جائے ۔اور مکمل تبدیلی کے لیے تبدیلی کے دعوے داروں کو اتحاد کرنا ہو گا۔کہنے والوں کو کون روک سکتا ہے یہ بھی کہا جا رہا کہ متحدہ مجلس عمل شائد پھر بحال ہو جائے ،اور تمام مذہبی جماعتیں مل کر الیکشن میں کودیں ۔لیکن میرا تو خیال ہے ایسا ممکن نہیں ہے ۔لیکن سیاست میں کسی کی کوئی بات حرف آخر نہیں ہو تی ہونے کو تو یہ ہو سکتا ہے ۔پہلے بھی تو ہوا ہے ۔آنے والے الیکشن میں ہو سکتا ہے تین بڑے اتحاد بن جائیں ۔ایسا ہوا تو کسی حد تک عوام کے لیے بہتر ہے لیکن اگر سب جماعتوں نے الگ الگ انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکے گی اس طرح ایک کھچڑی پک جائیگی۔
بننے والی مخلوط حکومت انتہائی کمزور ہو گی ۔ایک مایوس کن نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اور عوام کی بہتری کی کوئی صورت مجھے تو الیکشن کے بعد بھی نظر نہیں آ رہی۔ جس کو آ رہی ہو وہ مجھے ضرور بتائے تاکہ میں بھی خوش فہمی میں خود کو مبتلا کر سکوں۔یہ نتیجہ میں نے عوام کی اجتماعی نفسیات ،علاقائی سیاست کے کردار اور ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کے ماضی کو سامنے رکھ کر نکالا ہے ۔لیکن میرا دل چاہتا ہے اور میری دعا ہے کہ میرا تجزیہ غلط ہو اور اگر غلط ہو تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔