موسم بدلے تو کیا ۔۔۔ہم نا بدلیں گے

Load Shedding

Load Shedding

تحریر :چوہدری فتح اللہ نواز بُھٹہ

ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ دورِ زرداری میں خود کو خادمِ پنجاب کے نام سے منصوب کرنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب نے لوڈشیڈنگ کی ستائی عوام سے اظہارِ ہمددی کرنے اور سخت گرمی کے مارے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مینارِ پاکستان کے سائے میں ایک کیمپ کا انعقاد کرڈالا جو کیمپ کا کیمپ بھی تھا اور پنجاب کابینہ کے اجلاسسز بھی وہاں ہوتے رہے جبکہ سائلین سے ملاقاتیں بھی شہباز شریف کرتے رہے اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف بطورِ احتجاج اِس کیمپ میں بجلی کے کنکشن سے محروم ہی رکھا گیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کی ٹیم اکثر وبیشتر (ہمت فین) یعنی کہ ہاتھ والے پنکھے کا استعمال کرتے عوام اور دیکھنے والوں کو یہ باور کروانے کے لئے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بجلی کی اِس طویل لوڈشیڈنگ پے بھرپور احتجاج کر رہا ہے

جس احتجاج کا اُس وقت کی حکومت پر تو ذرا اثر نا ہوا تاہم سیاسی مارکیٹ میں وزیر اعلیٰ عوام کی مذید حمایت حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے ۔عوام پُر امید تھی کہ اب حکومت بھی بدل چکی ہے اور اُن سیاسی لوگوں کے پاس اقتدار ہے کہ جنہوں نے ووٹ ہی ملک سے مسائل خصوصاً بجلی کی لودشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنے کے وعدے اور دعوے سے لیئے تھے مگر اِن کے اقتدار میں آتے ہی الٹی گنتی پھر شروع ہوچکی ہے

لوگوں نے اللہ اللہ کرکے گرمی کا سیزن اکثر اوقات بجلی کی بندش کے باعث جیسے تیسے کرکہ گزار لیا اِس امید کے ساتھ کہ اب اکتوبر تک موسم میں کافی حد تک تبدیلی ہوجائے گی اور بجلی کی طلب میں بھی کافی حد تک کمی ہوجائے گی جس کے باعث شاید بجلی کی یہ طویل آنکھ مچولی کا سلسلہ تھم جائے اور لوگوں کو یہ آس بھی تھی کہ موجودہ حکومت بھی نت نئے اعلانات کررہی ہے کہ اب ملک میں بجلی کی لوڈگیڈنگ کا خاتمہ ہوکرہی رہے گا مگر لوڈشیڈنگ تو اپنی جگہ پر پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے پنجے گاڑ چکی ہے تاہم بجلی کا خاتمہ ملک سے ہر گزرے دن ضرور ہوتا جارہا ہے ۔اِن دنوں موسم نے بھی کروٹ بدلی ہے اور بغیر پنکھے کے بندہ سوسکتا ہے مگر پنکھا اِس لیئے آن کرنا ضروری ہے کہ (مونے)کو (مچھر صاحب )ناکاٹ لیں کیونکہ اِن دنوں مچھر وں کی بھی بے تات ہے جن میں اکثریت (ڈینگی یا ڈینگو)کی ہوتی ہے

جس کے ڈسنے سے انسان کی موت بھی واقعہ ہوسکتی ہے موسم کیا بدلا حکمرانوں کے بجلی کی لوڈشیدنگ کے حوالے سے جاری کردہ( فرمودات بھی جام) ہوچکے ہیں حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس مسئلے پر جاری کردہ بیانات کے سہارے بجلی سے وابستہ کاروباری حضرات کافی ہشاش بشاش نظر آنے لگے کہ اب الہ دین کے چراغ سے تمام مسئلہ ایک چٹکی میں حل ہوجائیں گے جبکہ اسی طرح گھریلوں صارفین کی خوشی کی تو کوئی انتہا نا تھی کہ اب بجلی بند نہیں ہوا کرے گی اِس امید پر گرمیاں گزار دیں مگر یہ کیا بجلی صاحبہ کی( آنیاں جانیاں ) تو پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہونے لگی ہیں اور وہ بھی ٹھنڈے موسم یعنی کہ بجلی کی کم طلب کے باوجود بھی فراہم نہیں کی جارہی ملک بھر کے اکثر خصوصاً دیہی علاقے اِن دنوں بجلی کی طویل بندش کی لپیٹ میں ہیں جس کے باعث اِس سے وابسہ کاروباری لوگ اور کسان حضرات بے حد متاثر ہورہے ہیں مگر حکومت ہے

Democracy

Democracy

اب اِس مسئلہ کے حوالے سے کوئی نیا وعدہ کوئی نیا (شوشا ) چھوڑنے سے بھی قاثر دیکھائی دیتی ہے مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں مگر نواز حکومت اپنے جوہر دیکھانے میں بُری طرح ناکام نظر آنے لگی ہے اور آجکل اُس پالیسی کو اپناتی نظر آرہی ہے کہ ووٹوں کے حصول کی خاطر جو یہ سیاسی لوگ کرتے ہیں اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بڑے وعدے کریں گے تاہم اقتدار حاصل کرتے ہی اِن سیاسی لوگوں کی یاد داشتوں کو ذنگ لگ جاتی ہے ایسے میں عوام بیچاری کا حال اُس خربوزے کی مانند ہوتا ہے کہ اگر خربوزچاقو پر گرے گا تب بھی خربوزے کا نقصاب اگر چاقو خربوزے پر گرے تب بھی خربوزے کا ہی نقصان اگر عوام ووٹ نا ڈالے تو جمہوری عمل کو نقصان اگر اپنے قیمتی ووٹوں سے اِن سیاسی لوگوں اعتماد کرلیں تو یہ سیاسی لوگ عوام کو درپیش مسائل کو حل ہی نہیں کرتے

موجودہ حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو ناکیا اور اِس مسئلہ میں روزبروز سنگینی ہی آرہی ہے مگر عوام کو یہ فاعدہ جوکہ حکومت کے لئے بھی کسی اجر عظیم سے کم نہیں کہ بجلی کے بلوں میں ٪100تک اضافہ کردیا گیا ہے ۔اب اگر یک دھرنے کی بات کی جائے تو حکومت اُس کی روک تھام میں تو ایسے مصروف ہے کہ اُس دھرنے کے جاری رہنے سے جیسے حکمرانوں کے محلات میں قیامت برپا ہوجانے کا اندیشہ ہے مولانا کا دھرنا ختم ہوا کہ حکمرانوں نے کچھ بھی نہیں دیا لیا اور بات بن گئی اب یہ خان سے بھی یہی امیدیں وابستہ کربیٹھے ہیں کہ وہ بھی بنا کچھ لیئے دیئے بنی گالا میں اپنا سامان باندہ کرچلاجائے گا

جو کہ قریب قریب تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے وہ سیاسی جماعت جس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے وہ اگر بزدلی کے مترادف ایسا کرتی ہے اور اپنے دھرنے کو ختم کردیتی ہے تو اتنی تیزی سے ہی یہ ملک کی بدنام ترین سیاسی جماعت بھی بن سکتی ہے ،مولانا فضل الرحمن پر خوکش حملہ ہوا جس پر وہ محفوظ رہے خودانخواستہ انہیں کچھ ہوجاتا تو ملک میں ایک روشن سیاسی باب بند تھا اللہ تعالیٰ انہین اپنی پناہ میں رکھے اور وطن، عزیزکو امن کا گہوارا بنائے جبکہ عوام اب صرف دعا ہی کرسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو یہ توفیق عطا فرمادے کہ یہ عوام اور ملک کو درپیش مسائل کو حل کرسکیں کیونکہ موسم بدلے سو بدلے اِن حکمرانوں خٰ حرکات اور ملکی مسائل سے آگاہی سے دوری کی فطرت کبھی بھی نا بدلے گی
اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔

Chaudhry Fethullah Nawaz

Chaudhry Fethullah Nawaz

تحریر :چوہدری فتح اللہ نواز بُھٹہ
0300.6692536
Email.awaz.e.qalab@gmail.com