اسلامی ریاست میں مغربی نوجوان مسلم لڑکیوں کی شمولیت برھنے لگی

Daas

Daas

دمشق (جیوڈیسک) ان خواتین کے ایسے انتہا پسندانہ فیصلوں میں مہم جوئی سے زیادہ اپنے معاشرے کے خلاف احتجاج کے اظہار کا عمل دخل ہوتا ہے۔ حال ہی میں 15 سے 17 سال کے درمیان کی عمر کی تین امریکی لڑکیاں جرمنی کے راستے شام پہنچ کر وہاں جہادی تنظیم اسلامک سٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے قریب نصف مسافت طے کر چکی تھیں۔

کہ گزشتہ ویک اینڈ پر انہیں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پولیس نے روک لیا۔ انہیں فوری طور پر واپس امریکا بھیج دیا گیا۔ تاہم شمالی امریکا اور یورپ سے تعلق رکھنے والی دیگر کئی لڑکیاں اب تک شام پہنچ چکی ہیں۔ اس سنی انتہا پسند گروپ میں شامل ہونے والے ہزاروں رضاکاروں میں تاہم خواتین کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

اندازوں کے مطابق شام میں اسلامک سٹیٹ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد لگ بھگ 200 ہے ، جن کا تعلق یورپ سے ہے اور وہ شام جا کر وہاں جاری خانہ جنگی کا حصہ بن گئی ہیں۔ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ برک ہارڈ فرائیر کے اندازوں کے مطابق اسلامک سٹیٹ میں شامل ہونے۔

کے لیے صرف اس ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنے والی خواتین کی تعداد 25 ہے۔ ان کے بقول یہ خواتین بہت کم عمر ہیں۔ مردوں سے کہیں زیادہ جوان ، 16 سے 20 سال تک کی عمر کی۔ ان تقریباً سبھی خواتین اور لڑکیوں کا تعلق تارکین وطن کے خاندانوں سے ہے۔