ہر تنظیم اور جماعت اپنے کام,اوراس سے وابستہ اغراض و مقاصد سے ہی پہچانی جاتی ہے. پیرس میں بہت عرصے سے صحافت بهی سیاست کی طرح ایک کیچڑبنتی جا رہی تهی. جس میں روز کے فوٹو سیشن اور ریسٹورنٹ یاتراپیسہ بنانے کا ایک زریعہ بن چکا ہے. گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ صحافت جو کبھی تحریری ہوا کرتی تھی۔ وہ یہاں آتے آتے تصویری صحافت کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں نے وہ کام کرنا شروع کر دیا کہ جو ان کا کام کبھی تھا ہی نہیں ۔ کیونکہ جو بات بھی فطرت کے خلاف کی جائے گی اس میں صرف اور صرف گند ہی مچے گا ۔ جس کا ثبوت ہم دن رات اپنے ارد گرد اور میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک میڈیا اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا کا کام ستھرے اوراہل لوگوں میں رہا۔ بہت مستند بھی رہا اور باوقار بھی۔
لیکن جیسے ہی یہ کام بازاری لوگوں کے ہاتھ لگا اس کا ہر ہر انداز بازاری ہوتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ حلقوں میں شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں ملکی ,معاشرتی اور اخلاقی مسائل پرسنجیدگی سے بحث کی جاسکے اور ان کے حل تجویز کیئے جا سکیں ۔ اس کے لیئے ضروری تھا تصویری صحافت کا رخ پھر سے تحریری صحافت کی جانب موڑا جائے اوراسے اسی مقام پر پہنچایا جائے جس کا کہ صحافت تقاضا کرتی ہے
۔ .ایسے ماحول میں کہ جہاں مردوں کو بهی اپنی حقیقی رائے دینے کیلئے پچاس لوگوں سے لابنگ کرنی پڑتی ہے. وہاں خواتین کے لئے تو ایسا سوچنا بهی محال ہے کہ وہ آزادانہ اپنی بات کو قارئینِ تک پہنچا سکیں. جہاں خواتین اپنی عزت بھی بچائیں اور ایک نسل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیئے تحریری شکل میں اپنا کام قارئین تک بھی پہنچائیں اور اسے اپنے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی اولادوں کے لیئے فخریہ اثاثے کے طور پر چھوڑ سکیں ۔ کہ یہ ہی اصل صدقئہ جاریہ بھی ہے۔
ایک ایسے وقت میں آج سے قریباً دو سال قبل پیرس کی معروف رائٹر اور کالم نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے ایک بہت بڑا اور اہم قدم اٹھایا۔ خواتین کے لئیے ایک اکیڈمی کا پروگرام پیش کر کے.اس وقت تک یہ ایک خیال کی سی حیثیت رکهتی تهی۔ لیکن ارادے کی پختگی اور سوچ کی مضبوطی نے اس خاتون سے وہ کام کروا لیا جس کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
بڑے بڑے ڈراونے جہازوں کو اپنی تمام تر دہشتوں کے باوجود جو منزل اور مقام نہ مل سکا وہ مقام اس تنظیم اور اکیڈمی نے اپنے ملک ,معاشرے اور اخلاقیات کی درستگی مین قابل فخر بہنوں کی معیّت میں بہت جلد حاصل کر لیا. لیکن یہ تو ابهی شروعات ہے.ابهی ہمیں بہت آگے جانا ہے.
چھ سال سے آج زیادہ ہونے کو ہے جب مجهے ذاتی طور پر شاہ بانو میر صاحبہ کو جاننے کآ موقع ملا. یہ کوئ روایتی دوسہیلیوں کآ تعلق نہیں تها .یہ دو سوچوں، دو زہنوں اور دوشخصیات کا تعلق تها اس میں کهٹےمیٹهے پل بهی آئے. لیکن یہ کهٹاس بهی کوئ ذاتی نوعیت کی کبھی نہیں رہی ۔ یہ دو سوچنے اور نقطہ نظر رکھنے والوں کے اصولی نکات پر دلیلی کهٹاس ہوا کرتی تهی جب ہم اس پر بحث کرتے اور جس کی دلیل مضبوط ہوتی ہم اسے بلا چون وچرا قبول کر لیا کرتے تهے ۔ یہ اس لیئے بهی تها کہ ہمارے کام میں کوئ پیسے کا لالچ یا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں تھا. لہذا خود غرضی کا بهی کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تها .کئی سمجهداروں نے ہمیں ایک دوسرے سے توڑنے کی ناکام کوششیں کیں لیکن جن بنیادوں کو لالچ کی ریت کے بجائے عزت،اعتماد ,اور یقین کے سیمنٹ سے بهرا جائے اور اس پر مقاصد کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو تب کہیں جا کر آپ کو ایک کامیابی کا محل نصیب ہوتا ہے.
یہ اسی خاتون کا عزم تها کہ جس نے مجهے اس کے کردار کی مضبوطی پر کبھی شک کرنے کی اجازت نہیں دی. جس نے بهری جوانی کو ہر ایک کے لیئے ماں جیسی سوچ اور رویے میں ڈھال کر گزار دیا ہو اس پر اب جب اپنے بچے اپنے قد برابر آن کھڑے ہوں، اس کی جوانی کے کردار کو نظرانداز کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی. اور کم از کم میں تو یہ ناانصافی کرنے کا نہیں سوچ سکتی. یہ مسئلہ میرا یا شاہ بانو میر صاحبہ جیسی خواتین کا عموماََ ہی ریا ہے کہ ہم بہت سے بھائیوں کی اکلکوتی بہنوں کے لیئے مرد کوئی دنیا کی انوکھی مخلوق نہیں رہتے وہ ہمارے لیئےیا تو ابو جی اور ڈیڈی جان ہوتے ہیں یا پھر ہمارے پیارے پیارے بھائی جن سے ہم لڑتے بھی ہیں، بحث بھی کرتے ہیں
باتیں مانتے بھی ہیں اور منواتے بھی ہیں ۔ اور کبھی کبھی ان سے ناراض ہو کر انہیں اپنی اور اپنے مقصد کی اہمیت کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہم سے بات کرتا ہے تو ہمارے لیئے وہ ہمارے بچوں جیسا ہی ہوتا ہے جسے کبھی ہم پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر سمجھانے اور کسی خرابی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں وہ پیارے بھائی جنہیں ایک عورت دانتوں میں دوپٹہ دبائے یا پھر زلفیں بکھرائے بیوٹی پارلر کا اشتہار بنے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے
Allah
وہ اس ، بااعتماد ،موضوعات ہر بےدھڑک اور دلائل سے بات کرتی ہوئی عورت ایک دم سے ذہنی طور پر قبول نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ان کی نظر میں دلیل دینا ، بحث کرنا ، کوئی مقصد اپنی زندگی میں رکھنا یہ صرف اور صرف ایک مرد کا حق ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ذینب سلام اللہ علیہ کی زندگی اس ہندووانہ تصور کی واضح نفی کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ہی سوچوں کی ہم اہنگی اور اور ایک دوسرے کا احترام ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ اور یہ ساتھ انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہیگا ۔ چاہے اس میں کتنے بھی اختلاف آئیں ۔ یہ تعلق دو سچی روحوں کے احترام کا تعلق ہے ۔
میں نے ہر ناراضگی کے بعد دوبارہ ملنےپر شاہ بانو میر صاحبہ کے لیا اپنے جذبات کو مزید نکھرا ہوا اور پہلے سے کہیں زیادہ محبت انگیز پایا ہے .اس اکیڈمی کے تحت ہر موقع اور حالات کے مطابق رپورٹس اور کالمز ہمارے قارئین تک پہنچتے رہے ہیں ۔ جس میں سیاسی. سماجی. معاشرتی اخلاقی اور دینی مسائل بهی شامل رہے ہیں. ہماری کوئی بهی تحریر کبھی بهی کسی ایک فرد کو نشانہ بنا کر تحریر نہیں کی گئی. جو ایسا سمجهتا ہے تو وہ ناسمجھ ہے اس ٹیم کی ہر بہن ذہنی طور پر انتہائی مضبوط ، بااعتماد، اور باشعور ہے ۔ محترمہ وقارالنساء صاحبہ ، محترمہ نگہت سہیل صاحبہ ،محترمہ انیلہ احمد صاحبہ ، محترمہ ممتاز ملک صاحبہ اور خود بانی اکیڈمی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ اس اکیڈمی کے لیئے اللہ پاک کی جانب سے کسی تحفے سے کم نہیں ہیں ۔
ہماری تحریر کا مقصد ہمیشہ ایک اجتماعی اصلاح رہی ہے. اور اس اصلاح کے عمل میں اور اسکے نشانے پر خود ہماری اپنی زات بهی ہوتی ہے کیونکہ ہم خود کو فرشتہ نہیں سمجھتے ہم میں بهی بےشمار خامیاں ہوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان خامیوں کو ٹهیک کرنا چاہتے ہیں ۔کئی دوسرے ساتھیوں کی طرح اپنی خامیوں پر اکڑتے نہیں ۔ کیونکہ اکڑنا ، غرور کرنا ، تکبر کرنا ، بڑائی کرنا یہ سب باتیں صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کو ہی زیب دیتی ہیں۔ ہم انسانوں کا اس سے کیا لینا دینا ۔ یہ باتیں اللہ پاک میں تو خوبیاں ہیں لیکن کسی انسان میں ان کا شائبہ بھی آ جائے تو اس کا بدترین عیب بن جاتی ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں ان عیوب سے اپنی امان میں رکھے ۔ آمین