برطانیہ میں مقیم کشمیری برادری کے افراد نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے اْجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں شہر کے تاریخی ٹریفالگر سکوائر سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ تک احتجاجی مارچ کیا اور برطانوی وزیراعظم کو ایک یادداشت پیش کی۔ شرکاء نے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بھارت کی مقبوضہ وادی میں جارحیت کے خلاف مختلف نعرے درج تھے۔ مارچ سے قبل جلسہ ہوا۔ مقررین نے تقاریر کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیا میں حقیقی اور پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کشمیریوں پر فوج کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم بند کرے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔
شرکاء نے برطانوی وزیراعظم اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کردار ادا کریں۔ شرکاء نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ مسئلہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ ملین مارچ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ زرداری نے بھی شرکت کی۔ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی مارچ میں شریک ہوئی اور کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کیا۔ ملین مارچ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر پہنچ کر ختم ہوا۔
کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے لندن ملین مارچ کے موقع پر بلاول بھٹو کے سٹیج پر آتے ہی بعض شرکاء نے نعرے لگانا شروع کردیئے کہ یہ سیاسی جلسہ نہیں، کشمیر کاز کیلئے آئے ہیں، بعض شرکاء نے ”گو نواز گو” اور ”گو بلاول گو” کے نعرے بھی لگائے۔ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نجی سکیورٹی اہلکاروں نے جلسے سے باہر نکال دیا۔ بلاول بھٹو نے ہنگامہ آرائی کے دوران مختصر خطاب کیااور لواں گے لواں گے،کشمیر لواں گے کے نعرے بھی لگوائے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے کشمیر کیلئے آواز اٹھائی اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے وہ لندن گئے۔ بھارتی انتہا پسندوں نے بلاول کو تقریر سے روکنے کی کوشش کی۔ کشمیریوں سے غداری کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ سکاٹ لینڈ کیلئے ریفرنڈم ہو سکتا ہے تو کشمیر کیلئے کیوں نہیں؟ ملین مارچ کے بعد بیرسٹر سلطان محمود نے برطانوی وزیراعظم کو یادداشت پیش کی جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے مداخلت کریں، مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے۔
بھارت کو کشمیریوں پر مظالم سے روکا جائے، مسئلہ کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے، مسئلہ کشمیر حل کرکے ہی دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی حکومت مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرے، کشمیریوں کی رائے کے مطابق معاملہ حل کیا جائے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرایا جائے، برطانوی پارلیمنٹ میں بھی معاملہ زیربحث لایا جائے۔ آج جب ہندوستان کے جارحانہ عزائم جنوبی ایشائی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں ایسے وقت میں کشمیری تارکین وطن کا یہ عظیم الشان مارچ مسئلہ کشمیر پر عالمی بیداری میں اضافے کا باعث بنے گا۔ کشمیر پر بین الاقوامی قراردادوں کو نظر انداز کرنا عالمی برادری کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ہندو طالبان کی شدت پسندی خطے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو مزید پچیدہ ہونے سے پہلے اپنا کردار ادا کرے۔اور 3 جون 1947 کے آزاد ی ہند کے اصولوں ، کشمیر پر بین القوامی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پُرامن اور منصفانہ حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ریاست جموں وکشمیر کے حق خودارادیت سے انکار کا مطلب ہندوستان اور پاکستان کی مذاکراتی آزادی کے کامیاب تاریخی تجربے پر ایک تلوار لٹکائے رکھنا ہے جو آنے والے وقت میں خطے کی توڑ پھوڑ کا ذریعہ بن کر ناقابل قبول عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔ 6لاکھ معصوم اور بے گناہ انسانی جانوں کی ہندوستانی غاصب فوجوں کے ہاتھوں شہادت اور قربانی کبھی رائیگاں نہیں جا سکتی۔یہ قوانین قدرت کے خلاف ہے ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں صرف اور صرف اپنی فوجی قوت کے ذریعے موجود ہے بصورت دیگر سرزمین کشمیر میں ہندوستان نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
Pakistan
مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیر اور ابھی تک ہونے والی ناکامی لارڈ مائونٹ بیٹن اور برطانیہ کے تقسیم ہند کے فیصلوں کو کمزور ثابت کر ہی ہے۔جبری اور فوجی قبضوں کا دور اب دنیا بھرمیں ختم ہو چکا ہے ۔پاکستان کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے حقوق کیلئے آزادی کی تحریک لڑنے والے کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی و سفارتی حمایت پاکستان کرتا رہے گا، ہندوستان کب اپنا وعدہ پورا کرے گا، اقوام متحدہ کی قرار داد کو منظور ہوئے دہائیاں گزر گئیں، بھارت کی وعدہ خلافی کی وجہ سے اس کی عالمی و سفارتی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی رویہ اور سرحدی خلاف ورزیاں دنیا میں ہندوستان کو جارح ریاست کے طور پر دیکھا جانے لگاہے۔،14اگست 1947ء سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پاکستان نے کشمیریوں کی حمایت کیلئے آواز بلند نہ کی ہو، اپنے حقوق کیلئے آزادی کی تحریک لڑنے والے کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی و سفارتی حمایت پاکستان کرتا رہے گا
اسی اخلاقی سیاسی و سفارتی حمایت کا تسلسل ہے کہ 27اکتوبر کو پاکستانی یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ دنیا میں بھارت کا ریکارڈ منفی ہوتا چلا جا رہا ہے،بین الاقوامی برادری میں کوئی حیثیت حاصل کرنے کی بھارتی خواہش بھی ان منفی ریکارڈ کی وجہ سے پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ بھارت نے سیلاب میں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، دنیا میں مسئلہ کشمیر سے پرانا کوئی ایشو نہیں، اقوام متحدہ ،مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں رائے شماری کرا سکتی ہے
تو یہاں کیوں نہیں۔بھارت دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کو عملی شکل دینے کیلئے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں و خواہشات کے مطابق حل کرنے کیلئے آگے بڑھے۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت کا جمہوری دعویٰ محض ایک فراڈ ثابت ہورہا ہے اور وہ کشمیری قوم کے بنیادی اور پیدائشی حقوق کو اپنی ملٹری طاقت کے بل بوتے پر دبا رہا ہے۔ ”کشمیر ملین مارچ” پر پابندی عائد کرنے کے بھارتی مطالبے کو برطانیہ کی طرف سے مسترد کئے جانے کہا کہ بدلتے حالات میں بھارت اب زیادہ دیر تک اپنی ملٹری مائیٹ والی پالیسی کو جاری نہیں رکھ سکتا ہے اور مستقبل میں جموں کشمیر میں اسکاٹ لینڈ ٹائپ رائے شماری کرانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہے گا۔
27 اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب 67 سال قبل بھارت نے بغیر کسی آئینی اور اخلاقی جواز کے جموں کشمیر میں اپنی فوجیں اْتار دیں اور ایک قوم کو اس کی مرضی اور منشا کے خلاف غلام بنالیا گیا۔ فوجوں کی آمد کو اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، البتہ اس وقت وہ آئینی حیثیت سے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے بے دخل ہوچکے تھے اور لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کی ہوئی تھی اور دوم ایک فردِ واحد کو کسی بھی طور یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ لاکھوں لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے جاننے کے بغیر از خود کرتا اور ان کے حقِ خودارادیت کو کالعدم کرتا۔لندن میں کشمیر مارچ تحریک آزادی کشمیر میں میں ایک نئے موڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو گا کہ کشمیریوں کی تحریک کا عالمی دہشت گردی کے ساتھ بالواسط یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس خطے کے لوگ اپنے جمہوری حقوق کے لیے ایک پْرامن جدوجہد کررہے ہیں۔