مایوسی اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جب وقفہ آتا ہے،تودل کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ہر طرف مایوسی ہی مایوسی دکھائی دیتی ہے۔جدھر بھی نظر گئی بدامنی، لوڈشیڈنگ، کرپشن کی گندی کہانیاں،سسٹم کی خرابیاں ہر سوصرف اندھیروں کی داستانیں ہیں۔ ان اندھیروں میں ،میںنے ہمیشہ سے جگنو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ سیاہ راہوںپر روشنی کی تلاش جاری ہے جس سمت روشنی دکھائی دیتی ہے اسی سمت لپکتے ہیں ۔غموں کے جہاں میں خوشیوں کا شہر آباد کرنے کی آرزو لیے آگے چل دیتے ہیں۔ایسی ہی ایک صبح جب مجھے علم ہوا کہ ہمارے وطن کے ہونہار بچے نے کم عمرترین آئی ٹی سیکیورٹی سرٹیفائیڈ کا اعزازحاصل کرکے ایک بار پھر دنیا بھرمیں پاکستان کے نام کو روشن کیا ہے۔
مجھے یہ خبر ڈھلتی شام کی طرف بہا لے گئی۔ایسی ہی ایک سہانی شام میں اس بچے کے والدین اور اساتذہ کے پاس بیٹھا اس ننھی جان کی دلچسپ باتوںسے محظوظ ہو رہا تھا۔یہ شام کب گہری ہوئی،گہری شام کب رات میں بدلی مجھے کچھ علم نہ تھا۔میں نے اس شام اس بچے کی آنکھوں میں پاکستان کاخوشحال مستقبل دیکھا تھا۔لاہور کے علاقے قلعہ لکشمن سنگھ سے تعلق رکھنے والے 8 سالہ محمد ہزیر نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکیورٹی کا امتحان انٹرنیشنل کمپیوٹرڈرائیونگ لائسنس سے پاس کیا جہاں مجموعی طور پر ایک کروڑ 20 سے زائد طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں، ہزیر نے آئی ٹی سیکیورٹی کے امتحان میں 78 فیصد نمبرحاصل کئے۔
محمدہزیر کا عزم ملاحظہ کیجیے یہ بچہ کتنا پر عزم ہے اس کا کہنا ہے دہشت گردوں کی جانب سے راولپنڈی پولیس کی ویب سائٹ ہیک ہونے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری حکومت کا سیکیورٹی لیول نہایت کمزور ہے جس بعد میں نے آئی ٹی سیکیورٹی کی کلاسز لینے کا فیصلہ کیا۔ محمد ہزیر 3 بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اورایک پرائیویٹ اسکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم ہے، ہزیرکے اہل خانہ اس کی اِس بڑی کامیابی پرپھولے نہیں سمارہے اور خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ہزیر گھر میں عام بچوں کی طرح کھیل کود کی بجائے لیپ ٹاپ کے ساتھ وقت گزارتا ہے جب کہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی اس کی دیکھا دیکھی یہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سے قبل ارفع کریم رندھاوا نے 9 برس کی عمر میں مائیکروسافٹ پروفیشنل کا امتحان پاس کر کے کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزاز حاصل کیا تھا تاہم وہ طویل علالت کے بعد جنوری 2012 میں 16 سال کی عمر میں انتقال کرگئی تھیں۔اس دھرتی میںجوہر کی کمی نہیں،درست سمت کا تعین اور بہتر انداز میں رہنمائی کرکے ہم اپنی نئی نسلوں کے ٹیلنٹ سے اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کر سکتے ہیں۔ایک دوست نے بتایا کہ دو کم عمر بچوں نے ایک سفرنامہ لکھا ہے پہلے پہل تو مجھے یقین نہ آیا بعد ازاں یہ کتاب مجھ تک پہنچی ،اس سفرنامے کے مطالعے کے بعد میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
Education
اس کتاب کا نام ایجیپشن ٹائمز اے ویو فرام دی نیل ریور ہے ،اس کتاب کے مصنفین سروش زاہد اور ندیا زاہد بالترتیب چوتھی اور چھٹی جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔ان ہونہار بچوں نے یہ سفرنامہ لکھ کر کم ترین مصنفین ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ بچوں کے ادب میں اس سے پہلے اس طرح سے کوئی سفر نامہ موجود نہیں۔اس کتاب میں مصنفین کے تین سالہ قیام کی یاداشتیں اور مشاہدات شامل ہیں۔اس سے پہلے اس خوبصورت انداز میں بچوں کے لیے معلومات افزاء سفرنامہ نظر سے نہیں گزرا۔
اس سفرنامے کا دلکش اور معصومانہ انداز اسے باقی سفرناموں سے ممتاز بھی کرتا ہے اس سفرنامے سے ہر عمر کے بچے استفادہ کرسکتے ہیں۔کم عمر ترین مصنفین نے خوبصورت پیرائے میں مصر کی تاریخی معلومات،تہذیب،تاریخی مقامات سے بھی متعارف کروایا ہے۔ان کم سن بچوں کی تخلیق پڑھ کر دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ان کم عمر بچوں نے اس چھوٹی عمر میں یہ کارنامہ سر انجام دے کر دوسرے بچوں کو ایک راہ دکھائی ہے۔ اس عمر میں ہی بچوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے۔
سچ پوچھیں تو مایوسیوں کی دلدل میں ان ننھے پھولوں کی یہ عظیم کاوشیں ایک بارپھر سے مردہ دلوں کو زندگی کا پیغام دے رہی ہیں۔ان بچوں کی لگن بتا رہی ہے کہ سچی محنت اور خلوص سے کی جانے والی کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں،تلاش کی جستجو ناکامیوں کے دروازے کھول کرآپ کو کامیابی کی منزل پر لاکھڑا کر دیتی ہے۔یہ کم سن بچے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں،کروڑوں مایوس نوجوانوں کے لئے امید کی وہ کرنیں ہین جو پیغام دے رہی ہیں کہ انسان کے حوصلے ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند اور عزائم بحرالکاہل سے زیادہ گہرے ہوں تو دنیا کی بڑی سے بڑی رکاوٹیں، مصیبتیں اور پریشانیاں انہیں منزل مقصود تک پہنچنے سے نہیں روک سکتیں۔انھی کے لیے مفکر پاکستان نے بڑی محبت سے کہا تھا محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند