میری کسی بھی پارٹی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے عمران خان سے میری تین دفعہ ملاقات ہوچکی ہے، شاہ محمود قریشی اور دوسرے تحریک انصاف کے رہنمائوں سے میری گا ہے بگا ہے فون پربات ہوتی رہتی ہے۔ میری ناصرف تحریک انصاف بلکہ پاکستان کی ہرپارٹی سے صرف ایک ہی لڑائی ہے کہ اگر غریبوں کو اپنی پارٹی قیادت میں شامل نہیں کرسکتے اور انہیں برابری کے حقوق نہیں دے سکتے تو پھر اُن کے نام پرووٹ لینا بھی چھوڑدو اور اپنی پارٹی دفتر کے باہر ایک بڑا ساسائن بورڈ لگا دو کہ اس پارٹی میں اہمیت صرف اُس آدمی کو ملے گی جس کے سیاسی سائیں تگڑے ہوں گے یا جس کے پاس ایک کڑور سے زائد بینک بیلنس ہو گا اگر پھر بھی عوام اُس جماعت کو ووٹ دینا پسند کرے اور دوتہائی اکثریت دلائے تواس سیاسی جماعت کاحق ہے کہ وہ اپنی حکومت بنائے۔
آج کل اگر ہر سیاسی پارٹی کا منشور پڑھا جائے تواس میں صرف ایک ہی بات کی تمہید نظر آتی ہے غریبوں کے حقوق، غریبوں کے حقوق لیکن اُس جماعت میں ہوتے سبھی سرمایہ دار ہیں۔ اب سرمایہ دار جوکہ اپنی زکوٰة اور ٹیکس دینے میں ہیر اپھیری کرتے ہیں وہ کیا غریبوں کواُن کے حقوق دلائیں گے۔شاہ محمود قریشی کی بے حسی کی مثال ملتان جلسے میں سب کے سامنے ہے جب ڈی جے بٹ ایمبولینس کیلئے پکار رہا تھا اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے جواب مل رہا تھا خیر ہے، خیر ہے کیا ایک تقریر کسی غریب انسان کی زندگی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ پتہ نہیں کب ان لوگوں کو احساس ہو گا کہ سیاست سے زیادہ انسانیت کی قدر ضروری ہوتی ہے۔
عمران خان ایک کھرا آدمی ہے۔ اس کی نیت بھی اچھی ہے وہ پیسے کا لالچی اور عہدے کا بھوکا بھی نہیں ہے کیونکہ اگر اسے پیسہ چاہئیے ہوتا تون لیگ نے جتنا پیسہ دھرنوں کی سیکیورٹی پر لگایا ہے اس سے دگنا اسے دے کر٥ سال کیلئے خاموش کرا سکتی تھی۔ اسکے علاوہ اگر اسے عہدہ چاہئے ہوتا تو وہ آسانی سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوابن سکتا تھا۔ سیاست میں آنابھی اس کا پاکستانی قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہے کیونکہ 1992 ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جتنی شہرت اور پیسہ اسکے پاس آچکا تھا اس سے وہ پوری زندگی عزت سے گزار سکتا تھا۔ بہت سے سابق کرکٹرز ریٹائیر منٹ کے بعد دوسرے ممالک میں خوشحال زندگی گزار بھی رہے ہیں۔ عمران خان صرف ایک غلطی کرگیا ہے اپنی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے چاہیے تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کوایک ایسی پارٹی بنا دیتا کہ اگر تحریک انصاف کی طرف سے کسی کھمبے کو ٹکٹ دی جاتی تووہ بھی جیت جاتا اور الیکشن جیتنے کیلئے دوسری جماعتوں کے سیاسی رہنمائوں کی ضرورت نہ پڑتی، وہ تبدیلی ہی اصل تبدیلی ہونی تھی جب تحریک انصاف شروع سے آخرتک نئے لوگوں کی قیادت میں اقتدار کا حصہ بنتی۔
دوسری جماعتوں سے آنے والے سیاسی لوگوں کی وجہ سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عمران خان کے دوسری جماعتوں پر لگائے جانے والے الزامات کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے ،کیونکہ جب بھی کسی پرایک انگلی اٹھائیں تو تین انگلیاں اپنی طرف آتی ہیں۔ عمران خان جب یہ کہتا ہے کہ دوسری جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے معرض وجود میں آئیں ہیں تو تنقید کرنیوالے کہتے ہیں کہ دائیں بائیں نظر دوہرا کر دیکھو وہ لوگ بھی تواسی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہیں ہیں۔ جب عمران خان کہتا ہے کہ میں سرمایہ داروں کی دولت ملک کی غریب عوام میں بانٹ دوں گا تو تنقید کرنیوالے یہ کہتے ہیں کہ کیا شاہ محمود قریشی اور جہانگیرخان ترین اپنی دولت عوام میں بانٹیں گے۔ عمران خان کی حکم عدولی وہ پہلے بھی کرچکے ہیں
جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلاتے ہوئے بجلی کے بل جمع نہ کروانے کا کہا لیکن شاہ محمود قریشی سمیت دوسرے تمام رہنمائوں نے اپنے اپنے بل جمع کروا دیئے۔ عمران خان جب یہ کہتا ہے کہ وہ نیا پاکستان بنائوں گا تو تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ پرانے سیاستدانوں کے ذریعے نیا پاکستان کیسے بنے گا۔ع مران خان جب میاں نواز شریف پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ غریبوں کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھتا ہے تو تنقید کرنے والے یہ پوچھتے ہیںکہ کیا عمران خان غریب لوگوں سے سلام لینا گوارا کرتا ہے میری تو خود تحریک انصاف کے بہت سے کارکنوں سے اس سلسلے میں بات ہوئی ہے ایسے کارکنوں سے جن کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے چھ، چھ، سات، سات برس ہوگئے ہیںان کا کہنا ہے کہ ابھی تک اُن کی عمران خان سے ملاقات تک نہیں ہوئی۔
Imran Khan
جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ نواز شریف وی آئی پی پروٹوکول کیوں استعمال کرتا ہے تو تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیا عمران خان بذات خودوی آئی پی پروٹوکول نہیں لیتا۔ کسی بھی انسان، جماعت یا فرقے پر تنقید کرنا بہت آسان کام ہے لیکن خود کو بہتر بنانا بہت مشکل کام ہے اصل مزہ تو تب ہی آتا ہے جب کسی دوسرے پر ایک انگلی اٹھائی جائے اور اپنی طرف بڑھنے والی تینوں انگلیوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ ہو۔
عمران خان کے کارکنوں کو چاہئیے کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے ووٹ بھی ضرور دیں لیکن اندھی حمایت بالکل نہ کریں۔ جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں کی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت میں ہونے والی غلط باتوں کے خلاف بھی آواز ضرور اٹھائیں۔ اس سے فائدہ ہی فائدہ ہو گا اور وہ تبدیلی جس کا ہر کوئی نعرہ لگاتا ہے وہ صحیح معنوں میں اپنی جڑیں پاکستان میں مضبوط کرے گی۔