مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد اسمبلی انتخابات کا اعلان، پہلا مرحلہ 25 نومبر کو ہو گا

Kashmir

Kashmir

نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارتی الیکشن کمشن نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد اسمبلی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ جھاڑکھنڈ میں بھی ریاستی انتخابات ہوں گے، دونوں جگہوں پر انتخابات پانچ مرحلوں میں ہوں گے، بھارتی الیکشن کمشن کے مطابق پہلا مرحلہ 25 نومبر، دوسرا 2 دسمبر، تیسرا 9 دسمبر، چوتھا 14 دسمبر جبکہ پانچواں 20 دسمبر کو ہوگا۔ ووٹوں کی گنتی 23 دسمبر کو ہو گی۔اس کے علاوہ نئی دہلی میں بھی تین نشستوں کے لئے ضمنی انتخاب 25 نومبر کو ہو گا۔

جبکہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق تجزیوں اور مختلف جائزوں کے مطابق مقبوضہ کمشیر میں کانگریس اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف عوام میں شدید بیزاری ہے اور آئندہ مہینوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ان کا وہی حشر ہو سکتا ہے جو مرکز میں کانگریس کا ہوا۔ معمول کے مطابق کانگریس اور نیشنل کانگریس کی شکست کی صورت میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کی اقتدار میں آتی لیکن اس بار شاید ایسا نہ ہو۔

وزیراعظم مودی نے کشمیر میں اقتدار میں آنے کی حکمت عملی تیار کی ہے لوگ سبھا کے انتخابات میں بی جے پی نے جموں کی دو سیٹوں اور لداخ کی واحد سیٹ پر کامیابی حاصل کی پارٹی نے پہلی بار 87 رکنی اسمبلی میں جموں اور لداخ خطے کی 41 سیٹوں میں سے 27 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل کی تھی بی جے پی نے کشمیر کے لئے ”مشن 44“ کا ہدف رکھا ہے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں کشمیر وادی کی 46 سیٹوں میں کسی پر بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں مل سکی تھی لیکن اسمبلی انتخابات کیلئے اس بار پارٹی نے مسلم اکثریت والی وادی کی کم از کم 10 نشستوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

وادی میں بی جے پی کی حکمت عملی کا محور دو پہلو¶ں پر مرکوز ہے پہلا یہ کہ وہ کشمیر سے بے دخل ہونے والے کشمیری پنڈتوں کو بڑے پیمانے پر ووٹ دینے کی ترغیب دے رہی ہے روایتی طورپر پنڈت بی جے پی کے حامی رہے دوسرا اس کا انحصار مجاہدین کے بائیکاٹ کی اپیل پر ہے جو اس کے حق میں جاتا ہے۔

حکمران نیشنل کانفرنس اور کانگریس اس بار الگ الگ انتخاب لڑ رہے ہیں یہ بھی بی جے پی کے حق میں ہے پچھلے چند مہینوں میں ریاست کے کئی اہم اور سرکردہ مسلمانوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے ان تمام عوامل کے ساتھ حکمران اتحاد سے بیزاری اور ایک نئی پارٹی کا تجربہ بی جے پی کو اقتدار میں لا سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو جموں و کشمیر کی پوری سیاست کا تناظر بدل سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے وزیراعظم مودی نے کشمیر کی فتح کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ عملی طور پر کارگر ثابت ہو سکتی ہے مودی کے انتخابی ماہرین اس وقت ’مشن کشمیر‘ کی اس حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔