تھرپارکر (جیوڈیسک) تھرپارکر جہاں کبھی تھر کے باسیوں کی بولیاں گونجتی تھیں، آج سکوت مرگ طاری ہے۔
صحرا میں پھیلی بھوک نے چھاچھرو میں مزید چار زندگیاں نگل لیں۔ مٹھی ہسپتال میں بھی ایک بچہ زندگی سے منہ موڑ گیا۔ صحرائے تھر میں ایک طرف خشک سالی کا عذاب ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کی نااہلی قیامت ڈھا رہی ہے۔
ناکارہ فلٹریشن پلانٹ منصوبہ حکومتی دعوؤں کا منہ چڑا رہا ہے۔ کنویں خشک ہونے سے بھی متاثرین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ جانیں بچانے کیلئے لوگ گھر بار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
علاقے میں امدادی کارروائیاں سُست رفتاری کا شکار ہیں۔ متاثرہ افراد نے شکوہ کیا ہے کہ مٹھی انتظامیہ نے تین لاکھ منرل واٹر کی بوتلیں ضائع کر دیں، ان سے کیا اُمید رکھیں۔
اُدھر سندھ اسمبلی میں وزیر خوراک جام مہتاب ڈہر نے تھر کی حالت پر پالیسی بیان میں کہا کہ ایک لاکھ ستاسی ہزار گندم کے تھیلے ہر ماہ تھر واسیوں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ اگر کوتاہی ہوئی ہے تو اس میں محکمہ ہیلتھ کو بھی ذمہ دار تصور کیا جائے۔