در حقیقت ہمارے ہاں عوام کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے وہ پانی جو گدھا پینے سے انکار کرے وہی پانی عوام پینے پر مجبو ر ہے۔ میرے شہر ڈیرہ اللہ یار میں اسلام آ باد سے ایک غیر سرکاری این جی او کی امداد پر ایک تعمیراتی کمپنی ایک اسکول بنانے آ ئی تھی ۔ کمپنی کی انجینئرسے میری اتفاقیہ ملات ہوئی تو اُس نے مجھے پانی کی دو بوتلیں بھر کر دینے کی لئے درخواست کی، تو میں نے پانی پینے والی اشیاء ( مٹکے )سے بھر کر اس کو دے دیا تو دور سے دیکھ کر بولا ” یہ گندا پانی ہے مجھے صاف پانی چاہئے ” میں حیران ہو گیا میں نے کہااگر آ پ کی اجازت ہو تو صاف پانی آ پ کو میں منرل واٹر بوتل دکان سے دلوا سکتا ہوں لیکن ہم یہی پانی پیتے ہیں۔ پانی کا رنگ ایسا تھا کہ اسے دیکھنے والے ہاتھ تک نہ لگاتے۔ پانی کراچی میڈیکل ٹیسٹ کے لئے بھیجا گیا جس کے ایک ہفتے کے بعد پانی کا رزلٹ کارڈ پہنچ گیا تو میں نے انجینئر سے ملاقات کر کے رزلٹ کے بارے میں وضاحت پوچھی تو کہنے لگا کہ ”یہ پانی جگہ یہ تعمیراتی فرش، اینٹ، چھت اور مٹی و مٹیریل میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اس میں نمکیات سمیت دیگر بہت برائیاں ہیں جو اینٹ ، مٹیریل ، چھت اور فرش کو ناکارہ بنا ئیں گے ان کی استعمال کی اجازت سپریم انجینئر نے نہیں دی ہے اب دوسری جگہ کی پانی ٹیسٹ کے لئے بھیجا ہے وہ پانی ٹیوب ویل کا ہے اگر یہ ٹیوب ویل جو زمین سے 50سے 100فٹ نیچے سے بزریعہ مشین انتہائی صاف شفاف پانی نکالے گا اگر ٹیوب ویل کے پانی کا نتیجہ قابل استعمال ہوا تو کام شروع ہوگا ۔ میں انجینئر کی باتوں کو دیکھتا ہی رہ گیا اور دل میں حیران تھا کہ اینٹ کی پیٹ مضبوط یا ہم انسانوں کا پیٹ مضبو ط ہے ؟ جواب آ یا ! اینٹ ،فرش اور دیوار ہم سے مضبوط ہیں ۔ تو ہم کیا ظلم کر رہے ہیں ناقابل استعمال پانی پیتے ہیں۔
تو مجھے سمجھ میں آ گیا کہ یہاں کے لوگوں میں 90فیصد لوگ ہپا ٹائی ٹس، پیٹ کی بیماروں، گردے اور جگر کی بیماریوں اور دیگر بیماروں میں کیوں مبتلا ہیں۔ محترم قارئین! عمارت کی دو بارہ بحالی کے بعد جب میں انجینئر کے پاس گیا تو انھوں نے بتایا کہ سات کمرے اور بونڈری وال کی چنائی کے لئے پانی کے لئے 15 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی ۔ میں اب تک حیران و پریشان ہوں کہ عوام صاف پانی کے لئے ترس ر ہی ہے اور عمارت کی تعمیر کے لئے 15لاکھ سے زائد کا پانی خرچہ ہوتاہے ۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ عمارت سو سال کی زندگی تو ضرور گزارے گی ۔ اس کو بیماری اور کمزوری نہیں تنگ کر سکتی ہے ۔ کیونکہ اس کے پیٹ میں صاف پانی ہے، ہماری طرح غیر شفاف پانی نہیں ہے۔
در حقیقت جو پانی دیوار میں لگانے کی قابل نہ ہو وہ پیا جائے تو بیماریوں کی تو عید ہو جائے گا ۔لوگ انتہائی بری حال میں ہیں ۔ پانی کا مسئلہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ 2002تا 2004 کے وزیر اعظم الحاج میر ظفر اللہ خان جمالی صاحب بھی حل نہ کر سکے اورسینٹ نائب چیئر مین میر جان محمد جمالی بھی اس مسئلے کی حل کر نے کی سینٹ میں قوت نہیں رکھتے تھے ۔2013ء میں نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسہ بھی اس بارے لا علم ہو گئے کہ اس مسئلہ کو کم از کم اپنے عہدے کی ٹیبل پر تو رکھ سکتے تھے جو نہیں ہوا ۔محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی نااہلی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ نہرسے پانی کو سپلائے کر کے واٹر سپلائے پلانٹ تک لانے کے لئے بھی غفلت برتے ہوئے ہیںراستے میں اس پانی میں لوگ نہاتے ہیں ، گدھے کتے اور مال و مویشاں بھی پانی پی کر ایک دو گھنٹہ پانی میںآ رام کرتے ہیں ۔پانی میں گاڑیوں کی سروس کی جاتی ہے، خواتین پانی میں کپڑے دھوتی ہیں ، مٹی گرد و غبار اس کی زینت ہیں اور یہ پانی ایک نالے کے زریعے پلانٹ میں پہنچ جاتا ہے اور پلانٹ سے سپلائے ہوتا ہے۔
واٹر سپلائے میں پانی بد بو دار موجود ہے جو عوام کو مہا کی جاتی ہے۔ واٹر سپلائے میں موجود پانی کا رنگ سبز اور کالا ہے جو کہ ناقابل استعمال ہے۔ یہاں متعدد صاحب طاقت لو گوں نے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کے اپنے لئے شفاف پانی کا بندوبست کیا ہے ۔ باقی عوام گدھوں کی استعما ل شدہ پانی پینے کے لئے مجبور ہے ان کے پاس دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔
اس مسئلے کو یہ نہیں کوئی نہیں دیکھتا ہے ۔ ضلعی پولیس آ فیسر اور محکمہ صحت کے ضلعی دفتر کے سامنے سے واٹر سپلائے کا نالا گزرتا ہے ان لوگوں کو اس مسئلے کا پتہ بھی ہے ۔ ڈی پی او اور ڈی ایج او ہیلتھ اور سمیت ضلعی انتظامیہ کی کی خاموشی سے لاکھوں لوگ بیماریوں میں مبتلا ہیں اور جوانی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ مسئلہ حل کے لئے ایم پی اے، ایم این اے ،ضلعی افسران اور ڈاکٹر حضرات سمیت متعدد سیاسی و سماجی حضرات اس مسئلے کی حل صرف اپنے لئے کرنے کے بجائے اجتماعی کرتے تو درست تھا۔
ان بالا اشخاص کی گھروں میں صاف شفاف پانی پہنچ جاتا ہے ۔ باہر سے گاڑیوں و موٹر کار پر ڈی پی او کے گھر دفتر میں پولیس کے خزانے ، ایم پی اے ایم این اے کے پاس تو ہڑپشن کا پیسا ہے ، ضلعی انتظامیہ و جج حضرات کی بھی سرکاری خزانے سے ہی اور با اثر شخصیات بھی تو کہیں نہ کہیں سے اپنا گزارا کرتے ہیں ڈاکٹر لوگ افسوس ہے زندگیاں بچاتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ موت بیچ رہے ہیں ان کے آ نکھوں کے سامنے لوگ زہریلا پانی پی رہے ہیں یہ لوگ بجائے عوام کو روکنے کے اپنے بال بچوں کو اس زہر سے نجات دیتے ہیں۔
Balochistan
یہ مسئلہ صرف بلوچستان کے ڈیرہ اللہ یار کا نہیں بلکہ اوستہ محمد، صحبت پور، نصیر آ باد کی 15لاکھ سے زائد آ بادی کا مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کی حل کے کے لئے صوبائی حکومت سنجیدگی سے اقدامات کریں ۔ ان اقدامات کے دوران پہلے مرحلے میں یہاں افسران کو بالکل دور رکھاجائے تو بہتر ہے ۔ یہاں کے افسران غیر ذمہ دار ہیں ۔ جس کی مثال یہ ہیں کہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی غفلت ، ڈی ایچ او ہیلتھ کے دفتر ، ضلعی پولیس دفتر کے سامنے پانی کو خراب کیا جاتے ہے جو پانی واٹر سپلائے پلانٹ میں جا رہا ہے وہی پانی ابتدا ء سے حرام اور ناقابل استعمال ہو رہا ہے کسی نے آ ج تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
پولیس آفیسر چند اہلکاروں کو واٹر سپلائے کی پانی سپلائے لائن کی حدود میں ڈیوٹیاں فرائض دیتے تو کم از کم گدھے ، بھینس اور کتے تو سمیت لوگ کپڑے نہیں دھوتے اور غسل بھی نہیں کرتے ۔ ڈی ایج او ہیلتھ بجائے عوام کے اس پانی کے پینے سے روکتا بلکہ خود کو روک کے جہاد عظیم کر گیا ۔ ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قیادت اس مسئلے کی حل آ ج تک نہیں کر سکے تو اب کیا کریں گے۔
بحرحال : 15لاکھ سے زائد عوام صاف پانی پینے سے قاصر ہے ان کو ناقابل استعمال پانی پینے سے روکا جائے اس غیر معمولی مسئلے کا حل حکومت کے پاس ہے مگر حکومت بلوچستان کے اعلیٰ حکام کی نظر جعفر آباد، نصیر آ باد اور صحبت پور پر بہت کم پڑتی ہے۔ یہاں بد نصیبی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ یہاں ارکان اسمبلی اور حکومت میں بیٹھنے والے اعلیٰ حکام کی بھی کوتاہی ہے کہ عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتے ہیں ۔یہاں کے سیاسی و قبائلی عمائدین کٹ پتلی ہیں شخصیت پرستی کرتے ہوئے سیاست کرتے ہیں ۔ میڈیا نے بھی ہمیشہ خاموشی اختیار کی ہے جس سے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ اب یہاں کی عوام کی آ خری امید وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ہے۔ وزیر اعلیٰ سنجید گی کے ساتھ اس مسئلے کی حل کرے ممکن ہے 3 سے 4 کروڑ روپیہ لاگت سے یہاں کی عوام کو صاف پانی مہیا ہو سکے جو ہپا ٹائی ٹس جیسے خطرناک مرض سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سنجید گی سے کام لیا تو 15 لاکھ سے زائد عوام ان کو دعا کرے گی ۔ صاف و شفاف پانی انسان کی ضرورت اور حق ہے حکومت کی ذمہ داری بھی ہے ان کو اس سہو لیات سے فیض یاب کریں ۔ ڈیرہ اللہ یار کامعصوم عوام مسیح کی انتظار میں ہے جو کہ اسے غیر شفاف اور ناقابل استعمال پانی پینے سے نجات عطا فرمائے اور صاف پانی کا مستقبل بندوبست کرے۔ 15 لاکھ عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔ جان لیوا امراض کا خطہ بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی اور آ غا خان میڈیکل یونیو رسٹی کے مطابق جعفرآباد ، نصیر آباد اور صحبت پور سے 70فیصد سے زائد لوگ ہپا ٹا ئیٹس اور دیگر خطر ناک امراض میںمبتلا ہیں اور ہپا ٹائیٹس میں اموات سب سے زیادہ ان علاقوں سے ہوتی ہیں جس کی بڑی وجہ غیر شفاف اور ناقابل استعمال پانی ہے۔ بحرحال : وزیر صحت بلوچستان رحمت بلوچ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک سے گزارش ہے کہ جعفر آباد ، نصیر آ باد ، صحبت پور کے گر د نواں کے 15لاکھ سے زائد لوگوں کو پانی کے بجائے زہر پینے سے روک لیں ورنہ ہزاروں لوگوں کی اموات ہوتی رہے گی۔