ورلڈ اکنامک فورم 2014 کی جنسی مساوات پر مبنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے۔ کہ 142 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 141 واں ہے اور آخری نمبر یمن کا ہے جبکہ آئس لینڈ پہلے نمبر پر ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی سیاست اور نوکریوں تک رسائی کے باعث جنسی مساوات میں گذشتہ دس سالوں کے مقابلے میں 2014 ء میں نمایا ں بہتری آئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق تعلیم کے حصول کے شعبے میں پاکستان 132 ویں نمبر پر ہے اور صحت کے شعبے میں 119 ویں نمبر پر ہے جبکہ سیاست کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 32 واں نمبر ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جنسی مساوات کے حوالے سے افریقی ملک روانڈنے سب سے زیادہ پیش رفت کی ہے جوکہ ساتویں نمبر پر دکھایا گیاہے جنسی مساوات کے حوالے سے پڑوسی ملک انڈیا 114 ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ گذشتہ سال اس کا نمبر 101واں تھا۔ اس رپورٹ کی مصنفہ سعدیہ زیدی نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر جنسی مساوات میں بہتری خواتین کی سیاست میں آمد اور نوکریوں کے حصول کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ۔برطانیہ جو گذشتہ سال 18 ویں نمبر پر تھا ۔اس سال 26 ویں نمبر پر آگیا ہے سعدیہ زیدی کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران مرد اورعورت دونوں ہی نے فکر معاش کی خاطر نوکریاں کی ہیںجبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ 49 ممالک میںمردوں کے مقابلے میں عورتوں نے زیادہ نوکریا ں کی ہیںجہاں تک سیاست کا تعلق ہے دنیا بھر میں اس وقت 26 فیصدسے زائد خواتین پارلیمان میں موجود ہیںاور50فیصد سے زیادہ خواتین وزراء کے عہدوں پر فائز ہیںیہ معشیت اور قومی ثقافت کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی ہے۔
مسلم دنیا کے بیشتر ممالک میں خواتین مردوں کے برابر تصور نہیں کی جاتیں اور انھیں محض گھریلو ملازمہ اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی آیا کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔کئی مسلم ممالک میں خواتین ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ڈرائیونگ پر پابندی ہے ملازمت نہیں کر سکتیں انہیں مر د کے برابر درجہ نہیں دیا جاتا US. سٹڈی کے مطابق پاکستان میں ہر 100 عورتوں کے مقابلے میں 111 مر د ہیں۔جبکہ پاکستانی اعدادو شمار کے مطابق ہر 100 عورتوں کے مقابلے میں 104 مرد ہیں 2010ء کے لٹریسی ریٹ کے مطابق پڑھی لکھی خواتین کی تعداد 39.6 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 67.7 فیصد ہے۔
دیہاتوں کے مقابلے میں شہروں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی ریشو زیادہ ہے اور گورنمنٹ پالیسی کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 70 فیصد نئے سکول کھولے جارہے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک میں تعلیمی بیداری آگئی ہے اورلوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جانی چاہیے کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ہی ایک پڑھے لکھے گھرانے کو جنم دے سکتی ہے ۔آج ہمارے ملک میں تعلیم کی بدولت نوکریوں میں بھی خواتین کو نمایا ں حیثیت حاصل ہو رہی ہے
مہنگا ئی کے اس دور میں خواتین اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں تاکہ وہ اپنے گھرانوں کی کفالت میں اپنا حصہ ڈال سکیں آج خواتین پاکستان کے ہر ادارے میں کام کر رہی ہیں میڈیکل ہو یا محکمہ تعلیم ،آرمی ہو یا سول ادارے ،انجینئرنگ ہو یا صنعت وحرفت ہر میدان میں خواتین آگے بڑھ رہی ہیں ۔ سپور ٹس فیکٹریوں اور فارما سوٹیکل کمپنیوں میں اکثریت خواتین کی فیکٹریوں میں کا م کر تی ہے لیکن ابھی بھی خواتین کو کئی چیلینجز کا سامنا ہے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تنحواہیں ادا نہیں کیں جاتیں مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں یہ خواتین انتہائی کم معاوضوں پر بھی اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں
Multan
یا تو ان بے چاریو ں کی جلد شادی کر دی جاتی ہے یا پھر شادی کی آس میں یہ گھرانوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سالہا سال تک نوکریا ں کرتیں ہیںپاکستان کے کچھ علاقوں کی خواتین کو کام کاج کرنے کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے اور فیکٹریوں کارخانوں تک جانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر ذرائع آمدورفت دستیاب ہیں جیسے اربن علاقے کراچی۔حیدر آباد، لاہور، راولپنڈی۔ گوجرانوالہ اور ملتان وغیرہ جبکہ کچھ علاقوں میں قبائلی روایات اور خاندانی وقار حائل ہو جاتاہے اور خواتین کو پردے اور محرم کے بغیر باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے ۔جسکی مثال قبائلی علاقے ،سندھ کے اندورنی علاقے ،جنوبی پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے سیاسی سطح پر بھی خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔
خواتین کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی حائل رکاوٹ خواتین کی تعلیمی پسماندگی ہے اور کئی شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مردوں کو مجبوراً ان شعبوںمیں تعینات کیا جاتا ہے۔پاکستان میں خواتین ملکی ورک فورس کا تقریباً 15 فیصد ہیں جوکہ انتہائی کم ہیں پوری دنیا میں چائنہ ،انڈیا اور پاکستان وہ ممالک ہیں جہاں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک کے لوگ بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔دنیا میں سو مردوںکے مقابلے میں 104 عورتیں ہیں جسکی وجہ وہاں کے موسمی حالات اور انفیکشن کا کم بڑھنا اور بہترین طبی سہولیات ہیں
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کے لیے ہر شعبہ زندگی میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنائے اور انہیں مردوں کے برابر شہری سمجھا جائے کیونکہ خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا نصف ہیں اگریہ خواتین بھی ہر شعبہ زندگی میں قدم رکھیں گی تو اس سے ملکی ترقی میں انقلاب آ سکتاہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں انڈسٹریاں لگائے، نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرے عورتوں کو کم شرائط پر بینکوں سے قرضے دیئے جائیں تاکہ وہ اپنے روائتی ہنر کو استعمال کریںاور اپنی ثقافت کو منڈیوں تک لاسکیںاور حکومت انہیں بیرونی ملک ایکسپورٹ کرکے ملک کے لیے بھاری زرمبادلہ کما سکتی ہیںجس سے نہ صرف ہنر مند خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ انہیں باعزت روزگار بھی میسر آسکتا ہے اور یوں پاکستانی خواتین کی حالت زار بہتر کی جا سکتی ہے۔