میانوالی(عبد الحمید خان) بہاولپور تھانہ کینٹ پولیس کے ہاتھوں کار چوری کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد پولیس کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے مقتول اشتیاق کے ساتھ گرفتار عبد الجبار نے جیل سے ضمانت کے بعد بہاولپور کی پولیس کے ظالمانہ تشدد کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ بہاولپور کی پولیس اور میانوالی تھانہ ہر نولی کی پولیس نے مورخہ 26 ستمبر 2014ء بروز جمعہ کو صبح 9 بجے کے قریب ٹرک اڈا پرریڈ کیا اور مقتول اشتیاق ولد عبد الستار اور ایک موٹر مکینک کو زیر حراست لے لیا۔ پولیس ابتدا میں انکو تھانہ ہر نولی میں لے گئی جہاں اس وقت ایس ایچ او آصف تعینات تھا۔ تھانہ ہر ن ولی کی پولیس مجھے مورخہ 27 ستمبر2014ء بروز ہفتہ تقریباً 4:30 میرے گھر سے ریڈ کر کے لے گئی۔
جب انہوں نے مجھے گاڑی میں بیٹھایا تو ان کے ہمراہ میرا کزن مقتول اشتیاق بھی انکی حراست میں تھا اس وقت انہوں نے اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔الیٹ فورس ہمیں تھانہ ہرنولی لے گئی وہاں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ پو لیس کے گلو بٹو نے ظالمانہ کاوائی کر تے ہو ئے میرے کزن کو الیکٹرک شاک لگاتے رہے۔میانوالی پو لیس بعد ازاں اشتیاق کے دوست محمدآصف کو میانوالی سے گرفتار کر کے ہر نولی لے آئی۔عبدالجبار نے بیان دیا کہ ہمیں رات کے 1:30بجے اسی دن بہاولپور سی آئی اے برانج پہنچا دیا گیا۔اس نے یہ بیان دیا کہ ملزم شبیر نامی شخص ایک کار چور ڈیلر تھا اور اسکے مراسم لکی مروت کے پھٹانوں سے تھے۔سی آئی اے برانج بہاولپور پو لیس نے ہمیں کہا کہ تم اقرار کرو کہ تم ملزم شبیر اور لکی مر وت کے پٹھانوں سے مراسم ہیں ہمارے انکار کر نے پر انہوں نے مجھے تو کچھ نہیں کہا کیونکہ میں پہلے بھی پو لیس کو یہ بتا چکا تھا کہ میرا تعلق حساس ادارے سے ہے اور وہاں ملازمت کر تا ہوں مگر انہوں میرے کزن اشتیاق ولد عبد الستار کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔انہوں نے اس غریب کو اتنا مارا کہ اس کے جسم سے پو را ہفتہ کون آتا رہا مگر اس کی مرہم پٹی نہ کی گئی۔
پولیس نے بعد ازاں ہمیں ایس پی بہاولپور کو پیش کردیا۔مگر اس میں بھی ہماری حالت پر رحم نہ کیا دوران حراست ایس ایچ او غلا م رسول بھٹی ہمیں روزانہ اخبارات دیکھاتا جس میں پو لیس مقابلوں کی خبریں اور تصاویر دیکھا کر کہتا کہ تمہارا بھی یہی ہال کر یں گے۔وہ کہتا کہ تم مر نے کا کو نسا طریقہ پسند کرو گے۔دوران حراست ہمارے دن کہی اور رات کہی گزرتی تھی۔سی آئی اے کا عملہ ہمیں کہتا تھا کہ گھر وغیرہ بیج کر ہمیں رقم دو تب تمہاری جان چھوٹے گی۔مبینہ ذرائع کے مطابق بہاولپور پو لیس ان سے مبلغ5لاکھ روپے کا مطالبہ کر تی رہی۔عبدلجبار نے میڈیا کو بیان دیتے ہو ئے کہا کہ مورخہ 5اکتوبر2014ء بروز اتوار کو سی آئی اے پو لیس نے انہیں بہاولپور تھانہ کینٹ میں بند کر دیا اور عید کے دن مورخہ6اکتوبر2014ء بروز سوموار کو پو لیس وین کے ڈرائیور کے ساتھ عاصم نامی ایڈووکیٹ آیا جس میں ہمارا نام لے کر ہمیں کہا کہ میں تمہارا وکیل ہوں۔اب آپ کو پو لیس مذید چھپا نہیں سکتی۔عید کے دوسرے دن مورخہ7اکتوبر2014ء بروز منگل کو مقتول اشتیاق کے والد عبد الستار کے ساتھ وکیل ایڈووکیٹ عاصم آئے۔چچا عبد الستار نے جب ہمیں اس ہال میں دیکھا تو رونے لگ گئے۔چچا نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ پو لیس اہلکار غلام رسول بھٹی نے ہم سے5لاکھ روپے کی رقم طلب کی ہے جوہم نہیں دے سکتے۔
انہوں نے ہمیں صبر کے لیئے کہا اور عید کے چوتھے دن19اکتوبر2014ء بروز جمعرات تقریباً صبح8:30بجے سیشن کورٹ کا بیلف آیا۔مگر انہون نے ہماری صبح7بجے کی گرفتاری ڈال دی اور بیلف کو بیان دیا کہ ہم نے صبح7بجے بہاولپور ان کو وکٹوریہ ہسپتال سے پکڑا ہے۔پھر بہاولپور تھانہ کینٹ کی پو لیس ہمیں سیشن کورٹ لے گئی۔سیشن کورٹ جانے سے پہلے پولیس اہلکاروں غلام رسول بھٹی اور ایس ایچ او محسن سردار نے ہمیں کہا کہ کوئی ایسی ویسی بات کی تو پھر تمہیں جان سے مار دیں گے اور سیشن کورٹ میں اُس وقت جج موجود نہیں تھا۔تھانہ بہاولپور کی پو لیس ہمیں واپس تھانہ کینٹ لے آئی۔عبدلجبار نے بیان دیا کہ پو لیس اہلکار جج کے موجود نہ ہو نے پر بہت خوش تھے۔اگلے دن10اکتوبر2014ء بروز جمعہ کو دوبارہ ہمیں ملی بھگت سے پو لیس نے علاقہ جسٹریٹ سے ایک دن کا جو ہماری گرفتاری کا وارنٹ لیا تھا وہ پیش کر دیا۔سیشن جج نے وارنٹ دیکھ کر خاموش ہو گیا اس کے بعد ہمیں مذید 3دن کے ریمانڈ میں لے لیا گیا۔
اسی دن مغرب کی نماز کے بعد ایس ایچ او محسن سردار نے ہمیں اپنے کمرے میں بلو کر کہا کہ اب کیا کرو گے اور ہم وہ کر یں گے جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔عبد الجبار نے میڈیا کو بیان دیتے ہو ئے کہا کہ اسی رات 10بجے کے قریب تھانہ بہاولپور کینٹ کی پو لیس میرے کزن اشتیاق کو لے گئی اور اگلے دن صبح3بجے اسے واپس لے آئی۔عبد الجبار نے بتایا کہ مقتول اشتیاق اس دن کافی پریشان تھا اور وہ کہتا تھا کہ دعا کرو کہ جج صاحب ہمرا مذید ریمانڈ نہ لیں ورنہ پو لیس ہمیں مار ڈالے گی اور وہی ہوا جس کا م ہمیںڈار تھا۔دوسرے دن12اکتوبر2014ء بروز اتوار رات2:30بجے کے قریب مقتول اشتیاق کو تھانہ بہاولپور کینٹ کی پولیس تھانہ کینٹ سے نامعلوم مقام پر لے گئی اور اس کو تشدد کا نشانہ بنا کر اسے جان سے مار ڈالا۔بعد ازاں اس کے جسم پر فائرنگ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اشتیاق ولد عبد الستار پو لیس کی حراست سے بھاگ رہا تھا اور پو لیس مقابلے میں مارا گیا۔کیونکہ پولیس نے اپنا بچائو تو کر نا تھا۔
مقتول اشتیاق کوقتل کر نے کے بعد صبح پانچ بجے پو لیس کا عملہ واپس آگیا مگر مقتول اشتیاق ان کے ہمراہ نہ تھا۔میرے پوچھنے پر مجھے یہ بتایا گیا کہ کہ پو لیس اُسے واپس میانوالی لے گئی ہے۔عبدالجبار نے بیان کیا کہ ہمارے تفتیشی پولیس اہلکار محمد صدیق نے مجھ سے پو جھا کہ تم کہا ملازم ہو اور باقی تمام معلومات مجھ سے لے کر کہنے لگا کہ تم بے گناہ ہو۔مورخہ13اکتوبر2014ء بروز سوموار تقریباً شام 3:30بجے عدالت میں مجھے عدالت میں پیش کیا گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان ظالموں نے مقتول اشتیاق کو اپنے بدترین ظلم کا نشانہ بناتے ہو ئے اسے قتل کر دیا ہے اور بیان کیا کہ زیر حراست فرار ہو نے کی کوشش میں پو لیس مقابلہ میں مارا گیا۔عدالت نے میرا مذید 2دن کا ریمانڈ دے دیا جبکہ میں نے رو رو کر عدالت سے یہ فریاد کی مگر جج نے میری ایک نہ سنی۔
عبد لجبار نے بیان کیا کہ تھانہ کینٹ میں واپس آکر ایس ایچ او محسن سردار نے مجھے بلوایا اور کہنے لگا کہ مقتول اشتیاق کو آپ کے رشتہ داروں اور لکی مر وت کے پٹھانوں نے قتل کیا ہے۔جبکہ عدالت میں انہوں ن پو لیس مقابلہ ظاہر کیا تھا۔ایس ایچ او محسن سردار نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے اپنی بڑی مشکل سے جان بچائی اور کہا کہ اگر تمہیں اپنا منہ بند رکھنے کی رقم کی ضرورت ہو تو اس کے بدلے ہم دے سکتے ہیں۔اس نے مجھے کہا کہ مجھ پر انہوں نے کو ئی نامزد پرچہ نہیں دیا ہے۔عدالت تمہیں جیل بھیجے گی اور پھر تمہاری ضمانت ہو جائے گی۔
عبدالجبار نے میڈیا سے پریس کانفرنس کر تے ہو ئے کہا کہ میری جیل جانے کے بعد17اکتوبر بروز جمعہ میری ضمانت ہو گئی اور میں اپنے گھر میانوالی واپس آگیا۔اس نے یہ بھی کہا کہ میری پریس کانفرنس کے بعدپو لیس میرے خلاف کسی قسم کا غیر قانونی ایکشن لے سکتی ہے اس نے کہا کہ ہماری وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب سے اپیل ہے کہ فوری طور پر تھانہ بہاولپور کینٹ کی پو لیس کی اس ظالمانہ پو لیس گر دی اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔علاوہ ازیں انہوں نے عدالت سے فوری طور پر اس ظالمانہ واقع کی تحقیقات عمل میں لانے کی اپیل بھی کی۔