تحریر : سید انور محمود دوستوں یہ ارض پاکستان ہے! انشا جی تو اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کیوں بنایا تھا لکھ گے غلطی ہو گئی آئندہ نہیں بنایں گے، آیئے آج آپکو پاکستانی سیاست کی سیر کرائی جائے۔ اب کوئی دوسرا پاکستان بنے یا نہ بنے ہم تو اسی پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی پاکستانی یا مسلمان نہیں رہتا، البتہ یہاں رہنے والے پنجابی، بلوچی، پٹھان، سرائیکی، سندھی، مہاجر وغیرہ وغیرہ جو مسلمان تو نہیں سنی، وہابی، شعیہ، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ یا غیر مسلم ہیں۔ اس ارض پاکستان میں سیاست ایک ایسی دنیا ہے جہاں لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک عام بات ہے۔اس میدان کے لوگ بڑے بے رحم، بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ ہیں، اس میدان میں وہ وہ اوچھے وار کیے جاتے ہیں کہ شاید جس کا تصور بھی نہ ہو، یہاں نہ عورت کا لحاظ ہے ، نہ کسی کے مرتبے کا۔ یہاں جس کا جو دل چاہے وہ کہہ دیتا ہے۔
سیاست میں یہاں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف 1964ء میں جب وہ ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہی تھی وہ گندی زبان استمال ہوئی جو ناقابل بیان ہے، محترمہ رانا لیاقت علی خان کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی نے ہندنی کا خطاب دیا۔ 1970ء کے الیکشن کے دوران بھٹو کو جماعت اسلامی کے حامی علما نے کافر قرار دیا، جواب میں بھٹو کے حامی علما نے مولانا مودودی کو کافر قرار دے دیا۔ مولانا کوثر نیازی کو مولانا وہسکی بھی کہا جاتا رہا ہے۔بھٹونے اصغرخان اور نور خان کوآلو کا خطاب دیا اور میاں ممتاز دولتانہ کو چوہا کہا، جبکہ چوہدری ظہور الہی کوبھینس چور اور فٹ کانسٹبل کے خطاب ملے۔1970ء کے الیکشن کے نتایج کے دوسرے دن پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات نے اپنے صفحہ اول پرموددی ٹھاہ، نصراللہ ٹھاہ، دولتانہ ٹھاہ کے نعروں کے ساتھ مولانہ مودودی کے چہرے کو ایک رقاصہ کے دھڑ کے ساتھ جوڑ کر اپنی جیت کا اعلان کیا۔ چار اپریل 1979ء کوبھٹو کو پھانسی ہوئی ، جماعت اسلامی کے اخبار جسارت نے اپنے ضمیمے کی ہیڈنگ لگائی “بھٹو بغیر وضو اور نماز کے پھانسی چڑھ گیا”۔ پاکستان کےچار ملٹری جنرلوں ایوب خان، یحیی خان، ضیاالحق اور مشرف کو کتے کے خطاب ملے جبکہ ان میں ایک کو شرابی اور زانی بھی کہا گیا۔
نواز شریف کو قاضی حسین احمد نے لوہا چور کا خطاب دیا، جبکہ جدہ جانے کے بعد وہ بھگوڑے بھی کہلائے، بعد میں “علی بابا چالیس چور” کا خطاب بھی اُنکو ملا۔ بے نظیر کے بارے میں بےہودہ الفاظ عام طور پر استمال کیے گے، پیپلز پارٹی کے دور میں زرداری کو ان گنت ناموں سے نوازہ جاتا تھا، مسٹر ٹین پرسینٹ اورکرپٹ صدر تو عام بات ہے، آج بھی وہ ایک کرپٹ سیاست داں کہلاتے ہیں۔ سابقہ قومی اسمبلی میں عورتوں کے بارے میں وہ نازبینا الفاظ استمال ہوئے جو اشاعت کے قابل نہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں مریم نواز کے بارے میں بھی بہودہ الفاظ کا استمال کیا گیا جبکہ اُس وقت کی پاکستانی وزیر خارجہ اور بلاول کے تعلقات کے بارے میں بہودہ پروپگنڈا کیا گیا۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بجلی چور کا خطاب ملاہے۔ الطاف حسین کے ان گنت نام ہیں جس میں دہشت گرد زیادہ استمال ہوتا ہے، ویسے آجکل اُنکے مخالفین اُنکو طافو کہتے ہیں۔ کچھ سال قبل جب عمران خان نے الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں کیس دائر کرنے کا اعلان کیا تو ایم کیو ایم نے عمران خان کے خلاف ایک امریکی عورت سیتا وائٹ سے ناجائز تعلق کا الزام لگایا اورعمران خان کے بارے میں کراچی میں وہ بہودہ وال چاکنگ کروائی کہ خود ایم کیو ایم کے ہمدرد بھی پڑھتے ہوئے شرماتے تھے۔
Imran And Altaf
گذشتہ سال ڈاکٹر قدیر خان جب سیاست میں آئے اور ابھی پوری طرح سیاست میں داخل بھی نہ ہوپائے تھے کہ سیاست دانوں کے حملے اُن پر شروع ہوگئے، پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف نے ڈاکٹر صاحب پر چاروں طرف سے حملے شروع کردیے۔ اُنکے خلاف تنخواہ والے لکھاریوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا، اُنکے کے بارے میں ایک تنخواہ دار لکھاری نے کچھ یوں لکھا کہ” پاکستان میں گندی سیاست میں مہارت رکھنے والوں میں ایک سے بڑھ کر ایک مداری شامل ہے ۔ وہی بازیگر ڈاکٹر صاحب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیئے بطور ” بچہ جمہورا ” استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ اور منظر نامہ کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان مداریوں کے ہاتھوں میں کھیلتے اپنی شہرت و عظمت کو داؤ پر لگا دیں گے”۔ ایک اور تنخواہ دار لکھاری نے لکھا “ڈاکٹر قدیر خان جس زمانے میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے سربراہ تھے، وہ اس وقت بھی پیشہ ور سائنس دانوں سے مختلف تھے ۔روزاول سے شخصیت کو نمایاں کرنا اور خبروں میں رہنا ڈاکٹر صاحب کی کمزوری ہے۔اپنے کارناموں کی تشہیر کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے “۔
دوستوں یہ ارض پاکستان ہے ! بدقسمتی سے منافقت کا یہ حال ہے کہ ہزاروں انسانوں کا قاتل اور طالبان دہشت گردوں کا سردار جب امریکی ڈرون حملہ میں مرتا ہے تو جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن اُسے شہید قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو ملا ڈیزل اور مفاد پرست سیاست داں کہا جاتا ہے، مولانا فضل الرحمان امریکی ڈرون حملے میں مرئے ہوئے کتے کو شہید کہنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، یہ بات اور ہے کہ اُسی امریکہ کے سفیر کے پاس سیاسی مفادات کےلیے حاضری دی جاتی ہے۔ اس ارض پاکستان کی سیاست میں رات کو دن، اندھیرے کو اجالا، آئین کو غیر اسلامی، مسلمان کو کافر ٹھہرانا سب سے آسان ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے عقیدت مند سے اُن سے جتنی بھی اندھی عقیدت رکھیں کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہیے، البتہ شکایت اس وقت ضرور پیدا ہوتی ہے جب دینی لبادے میں یہ سیاسی شخصیت اپنے شخصی مفادکے مدنظر ایسے الفاظ و تراکیب کا استعمال کرے جس سے کسی کا عقیدے یا عقیدت پر حرف آئے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے حوالے سے اپنے بیان میں جس طرح شام غریباں کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، اس سے کروڑوں فرزندان توحید کے جذبات مجروع ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی حلیف محمود خان اچکزئی کے والدخان عبدالصمد اچکزئی نے 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کیا تها اور اپنی پوری زندگی خان عبدالصمد اچکزئی یہ درس دیتے رہے کہ پختون قوم کی آزادی کے لئے آزاد پختونستان کا قیام ضروری ہے۔ آج محمود خان اچکزئی جوغریبوں اور مظلوموں کےہمدرد بنتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک اصول پسند سیاستدان کہتے ہیں، افسوس یہ دھرنے میں آئے ہوئے اُن غریب لوگوں کو خانہ بدوش کہہ رہے تھے جن کے ووٹوں کی بھیک سے یہ پارلیمینٹ میں پہنچے ہیں۔
عمران خان کے بارئے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک بدتمیز سیاست داں ہیں، الیکشن سے پہلے نواز شریف نے باقاعدہ اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ وہ عام طور پرجلسوں میں بلا اٹھاکر مجھے مارنے کی بات کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں خطاب کے دوران وہ آئی جی اور دوسرئے افسران کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور شدت سے نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ کسی افسر کو دھمکی دئے رہے ہوں یا نواز شریف سے استعفی مانگ رہے ہوں تو”اوئے” کا استمال بہت زیادہ کرتے ہیں، مثلا وہ کہتے ہیں “اوئے نواز شریف میں تیرا استعفی لیے بغیر واپس نہیں جاونگا”۔ اب اگر اس جملے پر غور کریں تو لازمی یہ بدتمیزی کے زمرئے میں آتا ہے، لیکن جیسے ابھی تک عمران خان سیاست میں کرکٹ کے داو پیج استمال کرتے ہیں بلکل اُسی طرح وہ سیاست میں ابھی تک کرکٹ گراونڈ کی زبان استمال کررہے ہیں، آپ ذرا سوچیں جب آپ کرکٹ کھیلتے تھے تو کیا آپ نہیں کہتے تھے “اوئےگیند پھینک”۔ عمران خان ویسے تو “طالبان خان” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں لیکن آجکل اُنکو عام طور پر “یو ٹرن خان” کہا جاتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری چونکہ زیادہ تر مذہب پر بات کرتے ہیں، اور اکثر یزید کا تذکرہ برے انداز میں کرتے ہیں، لہذا آجکل وہ اپنے مخالفین کو عام طور پر “یزید” کا خطاب دیتے ہیں۔ علامہ اپنے آپ کو شیخ اسلام کہلانا پسند کرتے ہیں لیکن اُنکے مخالفین اُنہیں “علامہ پادری “کے علاوہ” ملاکنیڈین” کے نام سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سندھ کے وزیر اطلات شرجیل میمن عمران خان کو مشورہ دئے رہے تھے کہ وہ دوسروں کے بارئے میں تمیز سے بات کیا کریں، اُنکو لازمی یاد ہوگا کہ عمران خان نے حال ہی میں کراچی میں جو تقریر کی تھی اُسکے جواب میں اُنکے مالک پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹویٹ میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب سیاست دان برداشت نہیں کر سکتے۔ایک ٹیسٹ ٹیوب بھٹو (بلاول بھٹو زرداری)سے یقینا اس قسم کے ہی بیان کی امید کی جاسکتی ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اب کہا جاتا ہے کہ سیاست کے دل میں نہ ہی وفا رہی ہے اورنہ ہی آنکھ میں شرم۔ تو دوستوں یہ ہے”ارض پاکستان کی گندی سیاست”۔