شیشے کے گلا س میں تیرتے ہوئے ذرات بہت نمایاں تھے،گرمی عروج پر تھی ،سچ پو چھیں تو پانی میں تیر تے ذرات کچھ زیادہ بر ے محسو س نہیں ہو رہے تھے کیونکہ اب یہ ایک عا م سی بات تھی ، نلکوں سے آنے والا پانی آئے دن اپنے اندر ایسے ذرات بطورتحفہ لاتا تھا، بہت مرتبہ متعلقہ محکمے کو شکایت بھی کی مگر مسلۂ جوں کا توں رہا، کہنے کو تو یہ پینے کا صاف پانی ہے مگر اپنے اندر پتہ نہیں کیا کیا سمائے ہوئے ہوتا ہے، کچھ ذرات تو تیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جبکہ زیادہ تر حل پذیر حالت میں موجود ہیں ، کبھی ذرات د کھائی دیتے تو کبھی پانی میں سے بو آ نے لگتی ، ایسا پانی پینے سے تو پیاسا رہنا منظور ہے
آلودہ پانی کا مسلۂ صرف ہمارے علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت سارے رشتہ دار جو پاکستان کے دوسرے صوبوں اور شہروں میں مقیم ہیں یہی گفتگو اور شکایات کر تے نظر آتے ہیں، پینے کا صاف پانی تو اسے کہا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے محفوظ ہو اور اس کا کم سے کم نقصان ہومگر یہاں بہت سے عوامل کی وجہ سے پانی دن بدن آلودہ ہوتا جارہا ہے اور نئی نئی بیماریا ں سر اٹھا رہی ہیں۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے ، ۲۰۰۵ میں کیے جانے والے سروے کے مطابق پاکستا ن کی کل آبادی ۴.۱۵۳ ملین ہے جو دنیا کی کل آبادی کا ۳۶.۲ فیصد ہے ، اتنی زیادہ آبادی والے ملک میں لوگو ں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،۲۰۰۴ سے ۲۰۰۵ میں کیے جانے والے سروے کے مطابق پاکستان میں ۵.۳۸ ملین لوگ صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں اور ۷.۵۰ ملین لوگوں کو صفائی کی بنیادی سہولیت میسر نہیں ہیں، پانی کا بہت سا حصہ ہم خود ضائع کردیتے ہیں سروے کے مطابق پاکستان میں کل پانی کا ۶ فیصد حصہ گھروں اور انڈسٹریز میں استعمال کیا جاتا ہے ،جس میں سے۳۰ سے ۴۰ فیصد حصہ ضائع ہوجاتا ہے اور باقی ۹۴ فیصد حصہ زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
زمین کا ۷۰ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے مگر یہ سارا پانی قابل استعمال نہیں ہے ،استعمال کے لیے پانی مختلف ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے مثال کے طور پر کنوؤں سے نکالا جاتا ہے ، بارش،اولوں اور برف پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے، دریاؤں نہروں ندی نالوں سے حاصل کیا جاتا ہے اس کے علاوہ سمندر کے پانی سے نمک نکال کر اس پانی کو قابل استعمال بنایا جاتا ہے، مگر یہ بہت مہنگا پڑ تا ہے،پاکستان میں سوشل اینڈ لونگ سٹینڈرڈ کے ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۱ سروے کے مطابق پینے کے پانی کے ذرائع یہ ہیں، ۳۲ فیصد نلکے کا پانی، ۲۸ فیصد ہاتھ کا پمپ، ۲۷ فیصد موٹر پمپ، ۴ فیصد کنوؤں سے اور ۹ فیصد دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پہلے سمجھا یہ جاتا تھا کہ دریاؤ ں اور ندی نالوں کی نسبت زیر زمین پانی صحت کے لیے زیادہ محفوظ ہے مگر جب اس پانی پر تحقیق کی گئی تو نتائج کچھ تسلی بخش نہیں آئے، زیرزمین پائی جانے والی چٹانوں سے فلورائیڈ مسلسل پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے اور فلورائیڈ پوائزننگ کا باعث بنتا ہے ، فلورائیڈ اگر تھوڑی مقدار میں ہو تو دانتو ں کے لیے مفید ہے مگر زیادہ مقدار میں یہ جوڑوں اور ہڈیوں پر برے اثرات مرتب کرتی ہے،اسی طرح کنوؤں میں آرسینک کی مقدارپائی جاتی ہے جس نے دنیا کے ۷۰ممالک میں۱۴۰ ملین لوگوں کو متاثر کیا ہے ،بنگلہ دیش میں ۱۲ ملین کنوؤں میں آرسینک کی بہت زیادہ مقدار پائی گئی ہے کنوؤں میں آرسینک کو ختم کرنے کے لیے بنگلہ دیش نے ۱۹۹۸ میں ورلڈ بینک سے بھاری قرضہ لیا مگر تمام کوششیں بے سود گئیں ، پانی میں شامل آرسینک پھیپھڑوں، گردوں، جگر اورسانس کی نالی میں کینسرکا سبب بن سکتی ہے
اس کے علاوہ سیورج کا پانی ، بارش کا پانی سب بہہ کر زیر زمین جمع ہوتے ہیں، اگر کنواں گہرائی سے کھودا گیا ہو تو صاف پانی کا حصول ممکن ہے لیکن اگر کم گہرائی سے نکالا گیا ہو تو اس میں بہت ساری کثافتوں، مختلف کیمیکلزحتی کہ سیورج کے پانی کی ملاوٹ بھی ہوسکتی ہے۔ پانی خواہ دریاؤں ، جھیلوں میں ہو یا زیر زمین ذخیرہ ہو دن بدن آلودہ ہورہا ہے ،اس کی وجہ انسان کے بنائے ہوئے کارخانے اور ان میں بننے والی مختلف مصنوعات ہیں ، زراعت اور اس میں استعمال ہونے والی ادویات بھی پانی کو آلودہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں،ان سب عوامل کے پیچھے دن دگنی رات چگنی بڑھتی ہوئی آبادی ہے
Traffic
بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، نقصان دہ مصنوعات، اور بہت سے عوامل نے مل کر پانی کو اس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ ہر سال ۳ ملین پاکستانی گندے پانی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں آنتوں کی بیماری، ہیضہ، پیچش، اسہال، ہیپا ٹایٹس، سیسے کا زہر، ملیریا، سانس کی بیماریاں اور پولیو جیسی بیماریا ں شامل ہیں ، ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ۳۰ فیصد بیماریاں اور ۴۰ فیصد اموات ناقص پانی پینے کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والا پانی اپنے اندر بہت سے کیمیکلزلے کر نکلتا ہے، انڈسٹریز کے مالکان خارجی پائپ کوقریبی چھوٹے ندی نالوں میں ڈال دیتے ہیں ،انڈسٹریز میں استعمال ہونے والے تمام نقصان دہ کیمیکلز اس ندی نالے کاحصہ بن جاتے ہیں اس کے بعد یہ چھوٹے ندی نالے بڑی نہروں اور دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں
پانی میں شامل ہونے والے یہ کیمیکلز نہ صرف آبی حیا ت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ انہی دریاؤں کا پانی لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس طرح وہ تمام کیمیکلز جو فیکٹریوں کے پائیپوں سے نکلتے ہیں پانی کا حصہ بن جاتے ہیں، یہی پانی ہم پینے کے لیے، کھانا پکانے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور تمام زہریلے مادے انسانی جسم میں شامل ہوجاتے ہیں اور انسانی اعضاء میں جمع ہو کر مہلک بیماریا ں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں،اکثر شہروں میں ابھی بھی دریا کا پانی نہانے، کھانا پکانے اور پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، دریاؤں اور بڑی نہروں کے کناروں پر موٹر لگا کر پانی کو کھینچا جاتا ہے
پھر اس گدھلے پانی کو پھٹکری ڈال کر،ابال کر قابل استعمال بنایا جاتا ہے مگر حل پذیر مادے پھر بھی پانی میں موجود رہتے ہیں ، گندہ پانی پینے سے بہت سے بیماریاں پھیلتی ہیں ، ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ۸۰ فیصد بیماریاں ناقص پانی پینے کی وجہ سے پھیلتی ہیں ، ایک سروے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ۵ ملین بچے ہر سال گندہ پانی پینے کی وجہ سے مر جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ہر سال ۳ ملین لوگ پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے ۱.۰ ملین موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ۶.۱ ملین لوگ ہر سا ل ڈائیریا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس میں ۹۰ فیصد تعداد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے۔
سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک بھی پانی کو آلودہ کرنے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، گاڑیوں کے پہیے جب سڑک سے رگڑ کھاتے ہیں تو بہت سے کیمیکلز جن میں لیڈسب سے زیادہ مقدار میں شامل ہوتا ہے سڑک سے رگڑ کھا کر سڑک کے ساتھ چپک جاتی ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو لیڈ اور دوسری بھاری دھاتیں بہ کر پانی میں شامل ہو جاتی ہیں اس کے بعد یہ پانی قریبی ندی نالے اور پھر دریا کا حصہ بن جاتی ہیں پانی میں شامل لیڈ اعصابی نظام پر بری طرح اثر اندا ز ہوتاہے خاص کر بچوں کے دماغ اور ان کی سوچنے سمجھنے کی سلاحیت کو بری طرح متاثر کرتاہے۔
صاف پانی کے حصول کے لیے پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں ،ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسیف کی مشترکہ کوششوں سے میلینیم ڈولپمنٹ گول بنایا گیاہے جس میں ۲۳ انٹرنیشنل آرگنائزیشن شامل ہیں ، اس کے آٹھ مقاصد میں سے ایک لوگوں تک صاف پانی کی فراہمی ہے اس کا مقصد ہے کہ ۲۰۱۵ تک ان لوگوں کی تعداد میں کمی کرنا ہے جن کو پینے کا پانی اور صفائی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں،پاکستا ن میں پینے کے پانی سے متعلق پالیسی بنائی گئی جسے ’نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی ۲۰۰۹‘ کہا جاتا ہے اس کا مقصد پاکستان میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے ،اسی سلسلے میں ۲.۸ ملین ڈالر خرچ کرکے فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ، یہ پلانٹ پاکستان کی تمام تحصیلوں میں نصب کیے گئے ہیں، ان کی کل تعداد ۴۴۵ ہے اور ان میں سے ہر فلٹریشن پلانٹ ہر گھنٹے میں ۲۰۰۰ گیلن پانی فلٹر کیا جاسکتا ہے
پانی کے حصول کے لیے بوتلوں کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پانی ضائع نہ ہونے پائے۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے جسم کے ۷۰ فیصد، خون کے ۵۵ فیصد اور کرہ ارض کے دو تہائی رقبے پر پانی نے احاطہ کر رکھا ہے ،پینے کا صاف پانی مہیا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ وفاقی حکومت کا کام منسٹری آف انوائرمنٹ کے ساتھ مل کر صاف پانی کی پالیسی بنانا ا ور اس پر عمل درامد کروانا ہے ،پاکستان کے بڑے شہروں میں اس مقصد کے لیے واسا کا ادارہ کام کررہا ہے ،ورلڈ ہیلتھ اور یونیسیف کے مطابق پاکستا ن میں صاف پانی کے حصول میں اضافہ ہوا ہے جو ۱۹۹۰ میں ۸۵ فیصد اور ۲۰۱۰ میں ۹۲ فیصد ہے ، مگر اس کے باوجود لوگ صاف پانی سے محروم ہیں، حکومت کو چاہیے کہ پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے اقدامات کرے ، وہ تمام انڈسٹریز جو اپنا خارج شدہ پانی ندی نالوں اور دریاؤں میں ڈال دیتی ہیں ان پر جرمانہ عائد کیا جائے تاکہ پانی کو کیمیکلز سے پاک رکھا جائے
لوگ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں، زیادہ سے فلٹریشن پلانٹس لگا کر پانی صاف کیا جائے اور پھر ان فلٹریشن پلانٹس کی صفائی کو یقینی بنایا جائے ، اس کے علاوہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے پانی کا استعمال بے جا نہ کیا جائے، فصلوں کو پانی شام یا رات کو لگایا جائے تاکہ پانی دھوپ سے بخارات بن کر فوراً ا ڑ نہ جائے ،ہمیں خود بھی ان سب پر عمل کرنا چاہیے اور دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچانا چاہیے کیونکہ یہ ذمہ داری درحقیقت سب پر عائد ہوتی ہے تاکہ ہم پانی جیسی نعمت کوناصرف صاف رکھ سکیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔