قارئین کہنے کو یہ صرف دو جملے ہیں لیکن اِن دو جملوں نے میرے اندر ایک تلاطم برپا کر دیا میںاُس رات سو نہیں سکا جس دن یہ دو جملے میں نے تحریرً ایک کتاب میں پڑھے۔ رات بھر اسی کے بارے میں سوچتا رہا، بنیادی طور پر اِن دو جملوں نے مجھے اندر سے ہلا کررکھ دیا تھا میں بار باراِن جملوں کی تشریح کررہا تھا ساری رات اپنے مقصد اور مطلب کی تشریحات نکالنے کے باوجود کسی طرح بھی ان لفظوں کی حقیقت سے انکار نہیں کرپارہا تھا۔ شاید میں سمجھ چکاتھا اِن جملوں میں کیا طوفان چھپاہے
کیونکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں انسان کی تاریخ پڑھ چکاتھا ، میں مذاہب کی تاریخ بھی جانتا تھا ۔اس لئے میں سمجھنے لگا تھا اِ ن جملوںسے کیا نکلنے والا ہے لیکن ڈر رہا تھا۔ اُس رات میںنے اپنی33 سالہ زندگی کی سب سے بے چین رات گزاری ۔ قارئین میں ہمیشہ سچ کا متلاشی رہا ہوں ،غیر جانب دارانہ حقیقت پسندی کی اِس جستجو میں بہت کچھ کھویا اور پایا ہے ۔سچ کی تلاش میں مسلکِ بریلوی سے زندگی کاسفر شروع کرنے والا حنفی، دیوبندی ، اہلحدیث ، فکرِ سر سید ،فکرِ اقبال اور پھر فکرِ پرویز تک جاپہنچااور آگے مزید کتنا سفر طے کرنا باقی ہے
کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ بحیثیت انسان ہونے کے ناطے میرے لئے سچ جاننا بہت ضروری ہے۔ اپنے رب کی حقانیت اور اُسکی وحدانیت کو پہنچاننا بہت ضروی ہے ۔ میں خواہ مخواہ کی زندگی گزارنا نہیں چاہتا میں اپنے اور اپنے رب کے مقصد تک پہنچنا چاہتا ہوں ۔ میرے آنے کا اور اُس کے بھیجنے کا راز جاننا چاہتا ہوں ، اِس لئے میں نے مذہب پرستوں کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے حق پرستی کا راستہ چنا سچ کا راستہ چنا ۔قارئین یہ دنیا رب تعالیٰ کی جانب سے نوع انسان کو ایک عظیم انمول تحفہ ہے جسے ایسے ہی بے مقصد گزار دینا یا ویٹنگ روم سمجھ لینا جہالت کی انتہا کو چھو لینے کے مترادف ہے۔اکثر و بیشتر ہرجگہ آپ کونوع انسان کی مختلف اقسام اسی جہالت گردی میں مبتلا نظر آئینگی۔
چاہے وہ دنیاوی و مذہبی تعلیم سے کس قدر ہی آراستہ کیوں نہ ہوں لیکن اپنی لا محدود سوچ کو مخصوص اور محدود حدوں میںڈھال کرعقل پرتالے لگالیتے ہیں۔ اِس طرح ایک با مقصد زندگی کا مقصد فوت ہوجاتاہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی خود کو ایک کمرے میں بند کرلے اور اپنی عرصہ حیات کو اُسی کمرے تک محدود رکھے ایسے انسان کا دنیا میں ہونا نہ ہونا ایک برابر سمجھا جاتا ہے،بِنا اس کی پرواہ کئے کہ یہ دنیا کیوں بنی ،کس کے لیے بنی، کس طرح بنی، اللہ رب العزت کا انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد کیاہے، انسان کے آنے کا مقصد کیا ہے
پیغمبران کے آنے کا مقصد کیا تھا، انھوں نے کیا کہا ، اورہم نے کیا کِیا ،انھوںنے کیاسمجھایااورہم نے کیا سمجھا،دنیا میں کیا کرنا ہے، کیوں کرنا ہے، کس کے لئے کرنا ہے، کس طرح کرنا ہے، یہ سب باتیں اُس کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں کیوں کہ اِن سب کی سوجھ بو جھ کے لئے اُسے عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت ہے اوریہ اُس کے لئے ناممکنات میںسے ہے کیوں کہ اُس کی عقل پر توقُفل لگے ہیںجسے کھولنا وہ کفر سمجھتا ہے ۔تسخیرِ کائنات کے حوالے سے قرآن مجید میں 700 سے زائد آیات موجود ہیںجن میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے فرما رہا ہے
Muslim
تحقیق کرو اور باغور دیکھو اِس کائنات کو جو ہم نے تخلیق کی۔لیکن ہمیں ڈاڑھی کے سائز ، برقعوں کی افادیت اور مسواک کے فائدے بتانے یاآپس کے اختلافی مسائل پر فتوےٰ گیری سے فرصت ملے تو ہم تسخیرِ کائنات کی آیات پر غور کریں ۔ اسی حوالے سے بحیثیت مسلمان دیکھا جائے تو ڈیڑھ کروڑ اسرائیلی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر بھاری ہیںکیونکہ پچھلے کئی برسوں سے مسلمانوں کی ساری توانائی آپس میں ایک دوسرے کو کفر کے فتو ے بانٹنے میں صَرف ہوگئی ۔ جبکہ اُسی دوران منتشر اسرائیلی متحد ہوئے اور علوم و فنون کی ایسی تاریخ رقم کی کہ دنیاکو تسخیر کر بیٹھے ۔ شاید اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے سر سید نے علوم و فنون کے حوالے سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک نئی جہد ِمسلسل کو جنم دیا تھا۔مولاناابو کلام آزاد اپنی کتاب غبارِ خاطر میں لکھتے ہیں
اٹھارویں صدی کے آخر میںفرانس کا نپولین بوناپارٹ جب مصر پر حملہ آور ہوا تو اُس وقت کے مصری حاکم مراد بیگ نے ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا جس میںمصر میں قائم اسلام کی سب سے بڑی درس گاہ جامعہ الاظہر کے علماء دین نے بھی شرکت کی اور مشورہ دیا کیوں نہ اِس مشکل وقت میں ختمِ بخاری شریف کرالی جائے ایسے مشکل حالات کے لئے تیر با ہدف نسخہ ہے ،چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ لیکن ابھی ختمِ بخاری شریف کا ختم مکمل بھی نہ ہوپا یا تھا کہ تب تک فرانس کی فوجیں باآسانی مصر میں داخل ہوچکی تھیں ۔ یہ حال رہا ہمارے علمائوںکا جن کے پیچھے ہم جنت کو تلاش رہے ہیں اوراُن کے فتوئوںکو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اپنے دل دماغ کو مائوف کرے بیٹھے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب بندوں کو آزاد خودمختاراور باشعور بنا یا اور ہم نے اُس کی ان نعمتوں کو ناقص جان کر قدیم اور لا شعور انسان کی فطرت کو اپنا تے ہوئے خود کوکسی نہ کسی صورت میں غلامی کی زنجیروں میںجکڑ لیا ۔یہی غلام زدہ ذہن اپنے دل میںحصولِ جنت کی خواہش لئے دنیا کوبے توقیر سمجھ کر جنت کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جنت کامتلاشی یہ انسان جس کا اصل ہدف صرف وصرف جنت ہے اور سمجھتاہے خود سے جنت تو کیا دوزخ بھی نہ ملے گی اِس لئے سب سے پہلے وہ دنیا ہی میں کسی جنتی کوڈھونڈتا ہے پھراُسکے قدموںکے دھندلائے ہوئے نقوش پر قدم بہ قدم چل پڑتا ہے اور دنیا میںآنے کا اپنااصل ہدف اورمقصد کھوبیٹھتا ہے۔
دنیا کو صرف سرائے خانہ سمجھنے والا یہی انسان بعدمیں ساری زندگی اپنی اور دنیا کی ناکامی کا رونا روتا ہے ایسے انسان سے دنیا کوسماجی طورپر کبھی کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی اس میں بسنے والے لوگوں کو،بلکہ اس کے برعکس یہ دنیا میںبسنے والے کھلے ذہین کے مالک اور دنیا میںاپنی نسلی بقا و تحفظ کے لئے اپنی عقلی صلاحیتوں کابھرپور استعمال کرنے والوں سے حریص و جلیسی میں مبتلاہوکر اُن کا کھلا دشمن بن جاتا ہے اجتماعی طورپر دیکھا جائے تو ایسے تمام لوگ اپنی ساری توانائی خود کو جنتی اور باقی سب کو دوزخی ثابت کرنے میںگزار دیتے ہیں
جو پورے معاشرے میں تباہی کا سبب بنتے ہیںجس سے دنیا میں فساد و انارکی جنم لیتی ہے۔ قارئین اس طرح کی سوچ آپکو دنیامیں مروجہ رائج تمام مذاہب میںملیںگی جو جنت کی تلاش میںدنیا کو جہنم بنادیتیں ہے ۔ اِن جنت کے متلاشیوںسے میراصرف اتنا کہنا ہے کہ اگر آپ واقعی جنت کے متلاشی ہیں تو پہلے اس دنیا کو جنت بنائیںجو رب تعالیٰ کی جانب سے نوع انسان کو ایک عظیم انمول تحفہ ہے اور ثابت کریں کہ آپ واقعی کسی جنت کہ اہل ہیں۔ قارئین میں بھی جنت کا خواںہوں لیکن میںاکیلا جنتی بننا نہیںچاہتا، میںاِس دنیا کو جنت اور اِس میںبسنے والے تمام لوگوںکو جنتی بناناچاہتا ہوں اورجہاں تک میںسمجھ پایا ہوںبحیثیت انسان میرے آنے کا اور اُس کے بھیجنے کا مقصد بھی یہی ہے۔