کراچی (جیوڈیسک) 8 محرم کا دن علمدار کربلا سے منسوب ہے ، جرات اور شجاعت کے پیکر ر حضرت عباس علمدار واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسین کے شانہ بشانہ رہے۔ انکی بہادری اور دلیری سے یزیدی لشکر پر بھی لرزہ طاری رہا۔
حضرت عباس ابن علی فاطمہ بنت خذام کے صاحبزادے اور امام حسین کے لاڈلے چھوٹے بھائی، ان کو شجاعت اور بہادری اپنے والد حضرت علی سے ملی جس کو دیکھ کر دشمنوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ واقعہ کربلا کے موقع پر وہ امام حسین کے ساتھ ساتھ رہے۔
یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے پیٹ پیچھے حملہ کردیا۔
نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو زخمی ہوگئے۔ عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے۔ بازوؤں کے زخمی ہونے کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔
امام حسین جب حضرت عباس کے قریب پہنچے تو وہ زخموں سے چور تھے، حضرت عباس نے اپنے بھائی کے ہاتھوں میں ہی شہادت پائی۔ انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی۔ اس جملے کے بعد امام عالی مقام نے علمِ غازی عباس کو اپنی ہمشیرہ بی بی زینب کے سپرد کیا اور جناب زینب شہادتِ حضرتِ عباس کے بعد قافلہ حسینی کی سالار بن گئیں۔