میرے والد گرامی قطب الاولیائ، استاذ الاساتذہ، زاہد بے ریا، شیخ المشائخ، حضرت مولانا پیر محمد اسلم قادری قدس سرہ العزیز 11رمضان المبارک 1347ھ بروز جمعة المبارک مراڑیاں شریف گجرات کے ایک عظیم علمی وروحانی گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ قدیم زمانہ سے بزرگان خاندان کے یہاں موجود تحریری شجرہ کے مطابق آپکا تعلق سلسلہ نسب 39 ویں پشت میں امیر المؤمنین سیدنا علی تک جا پہنچتا ہے۔ آپ فقیہ اعظم حضرت مولانا الحاج محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزند ارجمند اور خلف ارشد ہیں۔ حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ اپنے زمانہ کے عظیم فقیہ، علوم عربیہ اسلامیہ کے بے مثال ماہر استاذ، شب بیدار، باکرامت ولی کامل اور بارگاہ نبوی کے حضوری ومقرب تھے۔ آپ کی علمی جلالت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ محدث بھکھی شریف حضرت علامہ سید محمد جلال الدین شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اور کئی علماء کبار نے آپ سے علوم دینیہ کی تحصیل یا تکمیل کی۔ آپ کس قدر عبادت گزار تھے؟
آپ کے شاگرد رشید، شیخ المدرسین حضرت مولانا محمد نواز صاحب کیلانی بانی جامعہ مدینة العلم گوجرانوالہ فرماتے ہیں کہ میرے استاذ محترم حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ بیماری اور علالت کے ایام میں بھی کم از کم 18پارے روزانہ تلاوت فرماتے تھے اور آپ نے باقاعدہ قرآن حفظ نہیں کیا تھا لیکن تلاوت کر کر کے حافظ قرآن بن گئے تھے۔ خلیفہ حضرت شیر ربانی جناب سید محمد یعقوب شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ آف ماجرہ شریف نزد کنجاہ کو کسی وجہ سے زیارت نبوی بند ہوگئی تو آپ دریائے راوی کے کنارے ایک مجذوب کی رہنمائی پر مراڑیاں شریف پابرہنہ حاضر ہوئے حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی دعا سے اسی رات زیارت نبوی سے مشرف ہوئے۔ آپ اس کے بعد ہمیشہ ننگے پاؤں مراڑیاں شریف آتے اور فرماتے حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری اس قدر بارگاہ نبوی کے حضوری ومقرب ہیں کہ اگر شرع شریف اس زمانہ میں کسی کو صحابی رسول کہنے کی اجازت دیتی تو میں برملا حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری کو صحابی رسول کہتا۔ حضرت کی بے شمار کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے
آپ نے نہایت قحط سالی کے ایام میں نالہ بھمبر میں بارش کی دعا فرمائی اسی وقت کالی گھٹا ظاہر ہوئی اور موسلادھار بارش ہونے لگی اور لوگ بھیگتے ہوئے واپس آئے جبکہ دعا سے پہلے آسمان پر ذرہ بھر بادل نہیں تھے۔ آپکی اس کرامت کے کثیر تعداد میں گواہ آج بھی موضع مراڑیاں شریف اور ساہنوال کلاں وغیرہ میں زندہ ہیں۔
ہمارے والد گرامی رحمة اللہ علیہ نے اپنے عظیم باپ عالم ربانی مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ کی آغوش ولایت میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم رحمة اللہ علیہ سے حاصل کی پھر درس نظامی کی انتہائی کتب ملک کے ممتاز اساتذہ کرام سے مکمل کیں۔ فاضل عربی جامعہ فاضلیہ بٹالہ شریف (انڈیا) میں کیا۔ آپ نے نہ صرف درس نظامی پڑھا بلکہ آپ ابتداء سے دورہ حدیث تک درس نظامی پڑھاتے رہے اور بڑے بڑے قابل اساتذہ کو لمحوں میں درس نظامی کے اشکالات کا حل فرما دیتے تھے۔ آپ متبحر عالم دین اور صاحب ریاضت ومجاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر حکیم اور بے مثال ماہر عملیات بھی تھے۔ آپ نے حکمت اور عملیات کے ذریعے بھی ساری زندگی بے لوث خدمت خلق کی اور بے شمار لوگ آپ سے ان شعبوں میں بھی فیضیاب ہوئے۔
آپ نے 7 محرم الحرام 1367 ھ کو غوث زمانہ حضرت سیدنا پیر سید نذر محی الدین شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ سجادہ نشین ہشتم بٹالہ شریف (انڈیا) سے بیعت کی اور آپکی خصوصی نگرانی میں طریقت کی تمام منازل بڑی محنت وجانفشانی سے طے کیں۔ آپ نے نالوں کے ٹھنڈے پانیوں، پہاڑوں، غاروں، پاک وہند، کشمیر، عراق، حجاز مقدس اور دیگر ممالک کی بے شمار خانقاہوں میں ریاضات شاقہ اور نہایت مشکل چلے کاٹے جن کی مثال اس دور میں نہیں ملتی۔ آپ کے پیر ومرشد رحمة اللہ علیہ نے آپ کو اپنا روحانی بیٹا قرار دیا اور اپنے خلفاء میں سے صرف آپ کو تحریری خلافت عطا فرمائی اور دو بار آپ کو اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کرکے بغداد شریف بھیجا۔ بٹالہ شریف کے علاوہ آپ کو بغداد شریف کے تین نقیب الاشراف ہستیوں کی طرف سے علیحدہ علیحدہ خلافتیں عطا ہوئیں۔ 1. نقیب الاشراف سیدنا حضرت محمود حسام الدین الگیلانی البغدادی رحمة اللہ علیہ 2. نقیب الاشراف حضرت سیدنا ابراہیم سیف الدین الگیلانی البغدادی رحمة اللہ علیہ 3. نقیب الاشراف حضرت سیدنا احمد ظفر الگیلانی البغدادی مدظلہ العالی۔ علاوہ ازیں قطب مدینہ منورہ حضرت مولانا محمد ضیاء الدین مدنی رحمة اللہ علیہ، قدوة الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمة اللہ علیہ، حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی رحمة اللہ علیہ، مفتی اعظم حضرت سید ابوالبرکات شاہ رحمة اللہ علیہ، سیدنا سالم گیلانی کلید بردار درگاہ عالیہ بغداد شریف رحمة اللہ علیہ، حضرت سیدنا سید یوسف السید ہاشم الرفاعی مدظلہ العالی اور دیگر بے شمار صوفیاء اسلام نے میرے والد گرامی رحمة اللہ علیہ کو مختلف سلاسل روحانیہ کی خلافتیں عطا فرمائیں۔ برادر طریقت مولانا محمد افضل بٹ ملازم واپڈا ڈویژن نمبر ١ گجرات نے اپنے تأثرات میں لکھا ہے
حضرت خواجہ پیر محمد اسلم قادری رحمة اللہ علیہ نے بتایا کہ حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں کو سلسلہ غوثیہ میں بیعت لینے کا حکم دیا، تو میں نے عرض کیا حضور! میں اس قابل نہیں ہوں۔ تو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جو آ پ کے ہاتھ پر بیعت کرے گا وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔” فرماتے ہیں اسکے بعد میں نے بیعت کا سلسلہ شروع کیا۔
حضرت جد امجد مولانا الحاج محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ زندگی بھر مسجد مراڑیاں شریف میں مقامی اور مسافر طلبہ کو پڑھاتے رہے دو دو سو تک طلبہ آپ کے پاس ناظرہ قرآن سے لے کر درس نظامی کی انتہائی کتب پڑھتے تھے لیکن آپ نے دینی مدرسہ کیلئے مستقل عمارت تعمیر نہیں فرمائی۔ حضرت والد گرامی رحمة اللہ علیہ نے خواب میں حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے حکم سے فروی 1958میں اپنے والد محترم کے انتقال کے بعد مراڑیاں شریف کے جنوب میں حضرت کے مزار اقدس سے متصل جامعہ قادریہ عالمیہ کی بنیاد رکھی ابتداء میں رقبہ صرف اڑھائی مرلہ تھا۔ الحمد للہ! آج اس ادارے کا رقبہ تقریبا 30کنال سے زائد ہے جس میں طلبہ وطالبات کیلئے علیحدہ علیحدہ پر شکوہ درسگاہیں اور عظیم الشان جامع مسجد وعید گاہ قادریہ عالمیہ تعمیر ہوچکی ہیں۔ اور مزید منصوبہ جات پر کام ہورہا ہے۔ اور تقریبا 1000مسافر طلبہ وطالبات کی فری خوراک فری رہائش اور فری تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے۔ جامعہ قادریہ عالمیہ (قادریہ عالمیہ یونیورسٹی) سے ہزاروں طلبہ وطالبات فارغ ہوکر اندرون ملک وبیرون ملک اہم دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور اس وقت پاکستان، کشمیر، یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں 300 سے زائد شاخیں قائم ہوچکی ہیں جن میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔
آپ کے چند دیگر فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ آپ دینی امور میں بے پناہ محنت اور ریاضت ومجاہدہ کرنے والے بزرگ تھے۔ رات 1بجے سے لے کر چاشت تک عبادت میں مشغول رہتے بعد ازاں رات گئے تک عوام الناس کی اصلاح وارشاد اور جامعہ قادریہ عالمیہ کے انتظامات وتعلیم دین میں مصروف رہتے۔ اس اثناء میں قادیانیوں اور دیگر باطل فرقوں کے رد کا پورا اہتمام فرماتے اور جلسوں میں بھی شرکت فرماتے جامعہ قادریہ عالمیہ کے قیام میں کچھ لوگوں نے سخت اور بے حد مخالفت کی قاتلانہ حملہ بھی ہوا مگر آپ ہمیشہ ثابت قدم رہے اور کبھی نہیں گھبرائے آپ ہمیشہ مشکل سے مشکل حالات میں ڈٹ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت آپ کے شامل حال رہتی تھی۔
آپ بے حد فیاض تھے، ہر طالب سلوک کو چاہے مرید ہو یا نہ ہو وظائف، عملیات اور نسخہ جات وسیع الظرفی کے ساتھ بتاتے اور نوٹ کراتے اور جس شخص میں تھوڑا سا روحانی ذوق دیکھتے اس کی روحانی تربیت فرماتے اور خوب خوب فیض رسانی فرماتے۔ سادات کا بے حد احترام کرتے، حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے بے حد عشق ومحبت رکھتے تھے اس لئے گیلانی سادات کا نسبتا زیادہ احترام کرتے اور نذرانے بھی پیش کرتے۔ ضرورتمند اور سائلین کی حسب توفیق ضروری مالی امداد کرتے۔ عرب شریف اور عراق سے جب مہمان آتے تو بے پناہ خدمت کرتے۔ خوشحالی سے پہلے عرب آپ کے پاس بکثرت آتے تھے اور آپ بے پناہ خدمت کرتے اور دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب دیتے۔
آپ درود شریف کے اپنے دور میں مبلغ اعظم تھے، بے شمار لوگوں کو درود شریف پڑھنے پر مامور کیا ہوا تھا اور خود بھی بار ہا درود شریف کے حلقے قائم فرماتے رہتے اور پریشان حال لوگوں کو زیادہ تر درود شریف کا وظیفہ بتاتے درود شریف خضری درود شریف ہزارہ درود غوثیہ درود تنجینا اور دیگر کئی درود شریف چھپوا کر اپنے پاس رکھتے اور سفر وحضر میں تقسیم فرماتے۔ مصائب اور شکایات کے لئے درود شریف کا درج ذیل عمل خاص خاص لوگوں کو تعلیم دیتے: 11ہزار بار درود شریف ہزارہ پڑھ کر کسی میٹھی چیز پر ختم دلایا جائے اور وہ میٹھی چیز بچوں میں تقسیم کی جائے، اس سے لوگوں کو فائدہ ہوجاتا۔ اور خاص ساتھیوں کو لاکھوں کی تعداد میں درود شریف کے مخصوص وظائف کی تعلیم دیتے۔ بلا مبالغہ آپ نے اپنی زندگی میں اربوں مرتبہ درود شریف پڑھا، یا پڑھوایا ہے۔ چند کرامات:
قرآن وسنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندوں کو کرامات سے نوازا۔ حضرت والد گرامی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار کرامات ومبشرات سے نوازا، جنہیں مختلف شعبہ زندگی کے معتبر حضرات قلم بند کر وارہے ہیں جس کی تفصیل آپ کی مفصل سوانح حیات میں شائع کی جارہی ہے۔ قارئین کیلئے چند ایک کرامات یہاں ذکر کی جارہی ہیں: ٭ 1423ھ میں مجھے والد گرامی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ حج بیت اللہ وزیارت نبوی کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے قبلہ والد صاحب سے درخواست کی کہ میری صرف ایک ہی درخواست ہے آپ دعا فرمائیں کہ مجھے حضور سرکار مدینہ فداہ روحی وۖ کی سرپرستی اور نظر کرم نصیب ہوجائے، میں اس سفر میں ہر جگہ بار بار یہی دعا کرتا رہا۔ 8ذوالحج 1423ھ کو منیٰ میں حالت نیند میں مجھے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بڑی شاندار حاضری نصیب ہوئی اور بشارت ملی: ”تمہیں دوہری سرپرستی حاصل ہے۔” 14ذوالحج 1423ھ کا واقعہ ہے کہ حضرت والد صاحب کیساتھ مدینہ منورہ پہنچا۔ والد صاحب شدید علیل تھے، بے ہوشی کی کیفیت اور بے پناہ کمزوری تھی آپ کو ہوٹل میں ٹھہرایا اور مسجد نبوی میں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دی اس کے بعد ہوٹل آیا، اونگھ آئی تو مجھے بارگاہ نبوی میں حاضری نصیب ہوئی اور بشارت عطا کی گئی کہ ”مراڑیاں شریف کا مدینہ شریف کے ساتھ اتصال (رابطہ وتعلق) ہے۔”
Masjid Nabawi
٭ حضرت پیر سید عربی شاہ صاحب جو کہ عرصہ 35سال سے مسجد نبوی میں معتکف ہیں۔ صائم الدہر، قائم اللیل اور صاحب کشف وکرامات بزرگ ہیں، نے مدینہ منورہ روانگی سے پہلے جد امجد حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمہ اللہ کے مزار پر پانچ ماہ کا چلہ کیا اپنے تحریری تأثرات میں فرماتے ہیں: میں نے اس چلہ کے دوران عجیب وغریب واقعات دیکھے، حضرت صاحب مزار رحمة اللہ ٰ علیہ کی نظر کرم اور حضرت خواجہ پیر محمد اسلم قادری کی تربیت سے بیشمار فیوض وبرکات حاصل کئے اور کئی بار رسول اللہ ۖ اور جناب غوث الاعظم رضی اللہ عنہ و دیگر اولیاء اللہ کی زیارت نصیب ہوئی۔
٭ آپ کے مرید صادق مولانا محمد افضل بٹ ملازم واپڈا ڈویژن نمبر١ گجرات وخطیب جامع مسجد محمدی محلہ مسلم پورہ سرگودہا روڈ گجرات نے اپنے تأثرات میں لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت خواجہ پیر محمد اسلم قادری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی بیعت کی تو دل میں یہ خیال زور پکڑ گیا کہ پیر ومرشد کا مقام ومرتبہ کیا ہے اور اس خیال نے طوفان کی کیفیت بپا کردی لکھتے ہیں کہ 1985ء کا واقعہ ہے کہ دفتر میں فارغ اوقات میں سیرت فاروقی کا مطالعہ کررہا تھا کہ اونگھ محسوس ہوئی اور حضرت پیر ومرشد کی زیارت سے مشرف ہوا آپ نے فرمایا: ”بٹ صاحب تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے قطبیت عطا فرمائی ہے۔” میں نے عرض کیا حضور مجھے پتا نہیں تھا آنکھ کھلی تو پھر پہلے سے زیادہ غنودگی محسوس ہوئی تو پیر ومرشد نے فرمایا: ” بٹ صاحب اللہ تعالیٰ نے میرے سر پر قطبیت کا تاج رکھا ہے۔” یہ دو دفعہ فرمایا اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔
٭ مبلغ برطانیہ صاحبزادہ محمد دلشاد حسین قادری لکھتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: حضرت پیرومرشد! اولاد نہیں مل رہی بڑی مدت گزر گئی ہے تو پیر ومرشد مجھے دربار حضرت سلطان باہو لے گئے۔ مزار شریف پر اپنے ساتھ بٹھا کر مراقبہ فرمایا تو مجھے جاگتے ہوئے حضرت سلطان باہو رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت نصیب ہوئی بڑی بڑی آنکھیں ہیں، چہرہ روشن ہے، فرماتے ہیں: ”خدا تجھے بہت جلد اولاد عطا فرمائے گا۔” چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خوبصورت بیٹا (محمد سعید المصطفیٰ) عطا فرمایا۔ حضرت پیر ومرشد نے فرمایا (میری زندگی میں) کسی کو نہ بتانا۔
٭ مولانا محمد افضل بٹ ملازم واپڈا ڈویژن نمبر١ گجرات نے اپنے تأثرات میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم ایک اونچی دیواروں والی بڑی حویلی میں ہیں اور اس میں بے شمار مخلوق حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا انتظار کررہی ہے، میں بھی قبلہ پیر ومرشد کے ساتھ ہوں۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ سرکار دوعالمۖ کی پالکی آرہی ہے جسے کسی نورانی مخلوق نے اٹھایا ہوا ہے۔ پالکی دیوار کے باہر باہر آرہی ہے میں نے قبلہ پیر ومرشد کی بارگاہ میں عرض کی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پالکی آرہی ہے، آپ نے حویلی کے گیٹ کی طرف جانا شروع کردیا میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے جارہا ہوں۔ لوگ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طریقہ سے بھی برکت حاصل کرنے کے لئے ہمارے ہاتھ پالکی کو لگ جائیں میں نے بھی کوشش کی لیکن دیوار اونچی ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ لگا سکا۔ جب ہم گیٹ کے پاس پہنچے تو سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پالکی بھی وہاں پہنچ گئی اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پالکی سے باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر سفید چادر کا حجاب ہے۔ قبلہ پیرومرشد صاحب نے آگے بڑھ کر دست بوسی کی اور حضور نبی کریمۖ نے آپ کو گاڑی میں بٹھا لیا، جبکہ آپ کے صحابہ کرام بھی گاڑی میں پہلے ہی بیٹھے تھے
گاڑی سٹارٹ ہوگئی میں نے سوچا کہ پالکی کو ہاتھ بھی نہ لگا سکا اور چہرہ مبارک کی واضح زیارت بھی نہیں ہوئی جب گاڑی چلنے لگی تو میں گاڑی کے پچھلے حصہ کے ساتھ چمٹ گیا اور گاڑی چل پڑی۔ تقریبا ایک میل گاڑی چلی ہوگی کہ آپ کے صحابہ میں سے ایک صحابی نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ میں گاڑی کے ساتھ چمٹا ہواہوں، ہنس پڑے اور فرمانے لگے اللہ کے بندے تو کہاں چمٹا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی: بس ویسے ہی۔ آخر کار گاڑی چلتے چلتے ”جامعہ قادریہ عالمیہ” مراڑیاں شریف میں پہنچی اور حضور نبی کریم ۖ گاڑی سے باہر تشریف لائے مزار شریف کے بالکل قریب آئے اور فرمانے لگے: ”یہ کیسی پیاری جگہ ہے۔” اس کے بعد آپ ۖ ایک کمرے میں تشریف لے گئے اور آپ ۖ کے صحابہ بھی کمرے میں چلے گئے اور قبلہ پیر ومرشد مجھے فرمانے لگے: بٹ صاحب اور محنت کرو! اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔
وصال اور نماز جنازہ: آپ چند سالوں سے سخت علیل رہتے تھے لیکن ساتھیوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ 7ذوالحج 1424ھ بروز جمعة المبارک کو دائیں جانب فالج کے اثرات ظاہر ہوئے، دوسرے روز آپ کو ہسپتال داخل کروادیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے مختلف ٹیسٹ لے کے علاج تجویز کیا اور سات دن کے بعد گھر لے جانے کیلئے کہا۔ آپ گھر میں رہے لیکن طبیعت نہ سنبھل سکی پھر 24ذوالحج سوموار شام طبیعت میں بے حد کمزوری ہوگئی اور آپ کو رات کے وقت دوبارہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کروادیا گیا جہاں 25ذوالحج 1424ء / 17فروری 2004ء بروز منگل صبح 10بجے دنیا فانی سے رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اگلے روز 1بج کر 40منٹ پر آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جس میں پاکستان اور بیرونی ممالک سے ہزارہا خواص وعوام نے شرکت کی، اخبارات کے مطابق یہ جنازہ گجرات کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ وفات کے بعد 29گھنٹے تک آپ کے نورانی چہرے کی شب وروز زیارت ہوتی رہی۔ حیرت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام اموات کی رنگت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے لیکن حضرت والد محترم کا چہرہ دوسرے روز پہلے روز کی نسبت زیادہ نورانی تھا اور اس نورانیت میں تدفین تک اضافہ ہی ہوتا رہا۔ آپکو نیک آباد میں آپکے والد محترم رحمة اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ عرس مبارک: آپ ہر سال 10محرم الحرام (عاشورہ) کو صبح 9 تا نماز ظہر ”شہادت کربلا کانفرنس” بڑی عقیدت کے ساتھ منعقد فرماتے تھے، آپ کا عرس مبارک بھی اس کانفرنس کے ساتھ انعقاد پذیر ہوتا ہے۔