ریاست ہریانہ، نئی حکومت اور مسلمان

Community

Community

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی

کچھ ز خم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بھر جاتے ہیں،دب جاتے ہیں، ہلکے پڑ جاتے ہیں،یا شدت میں کمی آجاتی ہے ۔وجہ؟ کیونکہ حالات بدل چکے ہوتے ہیں،مسائل وہ نہیں رہتے جو پہلے تھے لہذا زخموں میں تکلیف بھی اس درجہ نہیں رہتی ۔لیکن اگر معاملہ اس کے برخلاف ہو،ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو ،مسائل جوں کے توں ہوں، یا ان میں کمی آئی بھی ہو تو بس اتنی جسکا تذکرہ بھی مذاق لگے۔تو پھر ایسے حالات لازما ً موقع فراہم کرتے ہیں کہ متعلقین توجہ دیں اور جلد از جلد مسائل کے حل میں منصوبہ بند، منظم، پیہم مسلسل سعی وجہد کا آغاز کریں۔کچھ ایسے ہی معاشرتی مسائل سے ریاست ہریانہ کے باشندگان آزادی سے لے کر آج تک گھرے ہوئے ہیں۔تبدیلی اگر آئی بھی ہے تو معاشرتی، سماجی، تہذیبی بنیادوں پر نہیں بلکہ مادی بنیادوں پر آئی ہے۔

جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے مالس،ہائی ٹیک شہر،بہترین سڑکیں اور خوبصورت لباسوں میں ملبوس انسان تو نظر آئیں گے لیکن اگر اس خوبصورتی،رونق،چمک دمک اور روشنیوں کے میناروں کے پیچھے جھانکاجائے تو معلوم ہوتا کہ آج بھی ہریانہ میں رہنے بسنے والے حضرات ان تمام جاہلانہ تصورات، طور طریق، رسم رواج کی بیڑیوں میں بندھے ہوئے ہیں، جو ایک مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتیں۔اس پورے پس منظر میں مسلمان جو ریاست میں صرف چھ ،سات فیصد ہیں،اگر ان کے مسائل پر غور کیا جائے !تو یہ ایک بے انتہا الجھا ہوا نقشہ پیش کرتے ہیں،جس کا فوری حل بھی شاید نہیں ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق فی الوقت ہریانہ کی آبادی 25,353,081 ہے۔ڈھائی کروڑ کی آبادی میں 1000 مردوں میں صرف 877 خواتین ہیں۔دوسری جانب بچوںکا تناسب 1000 میں 861 ہے۔ جبکہ 2001 میں بچوں کا تناسب1000:964تھا۔وجہ؟ رحم مادر میں بچیوں کا سفاکانہ قتل ،اسقاط حمل،اور خواتین اور بچیوں کو عزت کی نگاہ سے نہ دیکھنا اوران کی پرورش کو بوجھ سمجھناہے۔نتیجتاً خواتین پر ظلم و تشددکے بے شمار واقعات بکھرے پڑے ہیں۔اس غیر فطری تناسب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں لڑکیوں کو اغوا کرنا،ان کی خرید و فروخت،اور جسم فروشی جیسے قبیح سماجی مسائل سے ہریانہ دوچار ہے۔

تیسری جانب اگر یہ بیٹیاں بڑی بھی ہو جائیں تو ان کی شادی،اور شادی میں غیر ضروری رسم و رواج، لڑکیوں اور ان کے والدین پرجہیز کی شکل میں ان کی زندگیوں سے کھلواڑاور سماجی دبائو،جہیز کم ملنے پر نئی بہوئوں کو زندہ جلایا جانا،ان پر بے شمار مظالم،اور تشدد کی رلا دینے والی داستانیںعام ہیں۔لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر کہیں فحاشی و عریانیت کا فروغ تو کہیں مال و دولت کی فراوانی میں غرق نوجونوانوں کی بے راہ روی نے خواتین کی عصمت کو تار تار کر دیا ہے۔نیز غربت و افلاس کے نتیجہ میں ایسے شرمناک واقعات بھی آپ کو دیکھنے کو ملیں گے جہاں ایک ہی گھر میں دو اور تین بھائیوں کی بیوی ، بیک وقت،ایک ہی عورت ہے۔

اس غیر فطری تناسب اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ مسائل کی عمومی وجہ ہریانہ میں “گوتر “کاچلن اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہے۔جاٹ سماج میں یہ گوتر تقریباً 10,500 مانے جاتے ہیں۔ اور ایک گوتر میں رہتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی ۔گوتر کے مسائل عموماً کھاپ پنچایتوں میں حل کیے جاتے ہیں۔ جہاں غیرت کے نام پر قتل کے فیصلہ سرے عام نہ صرف سنائے جاتے ہیں بلکہ عمل بھی کیا جاتا ہے۔شادی کا معاملہ ہو یا فوجداری کا، یہ کھاپ پنچایتیں فیصلہ سنانے میں دیر نہیں کرتیں۔ اور ان کے فیصلے اکثر عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے ایک شادی شدہ جوڑے کو بھائی بہن کی طرح رہنے کا حکم سنایا تھا کیونکہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی گوتر یا خاندان سے تھا۔

اب وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ایک ہی گوتر اور ایک ہی گاؤں کے اندر شادی پر پابندی لگانے کے لیے ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ گاؤں کی لڑکی کو بہو نہیں بنایا جاسکتا۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہریانہ میں، جہاں آئے دن کوئی نہ کوئی ان پنچایتوں کے من مانے طریقوں کا شکار بنتا ہے، کسی سیاسی رہنما میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان کے سامنے آواز اٹھا سکے۔

Society

Society

وہیں مسائل اور ان سے پیدا شدہ معاشرے کے علاوہ ایک اہم مسئلہ ریاست کے مسلمان ہیں۔یہ مسلمان آج تک اُس شدھی تحریک سے متاثر ہیں جنہیں شرعی نقطہ نظر سے مرتد کہا جاتا ہے۔شدھی کی تحریک سوامی دیانند سرسوتی سے وابستہ ہے۔شدھی یعنی صفائی یا پاکیزگی ،جس سے کسی بھی فرد بشر کو انکار نہیں ہو سکتا البتہ اْن کی شدھی تحریک کا یہ مطلب تھا کہ ہندوستان میں جو مذہبی گروہ ہندستانی معاشرت سے دور ہو چکے ہیں اُن کی شدھی تب ہی ہو سکتی ہے جب کہ وہ ہندوستانی معاشرت کو پھر سے اپنا لیں۔شدھی تحریک کا آغازبنگال میں ہندو میلوں سے شروع اور با گذشت زماں اْن میں تشدد کی تحریک بھی شروع ہوئی۔نو جوان ہندوں کو لاٹھی،تلوار و خنجر استعمال کرنے کے طریقے سکھائے جانے لگے۔

آریہ سماجی تحریک کے بعد راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام عمل میں آیا جس کی بنیاد 1925ء میں کیشو بیلی رام ہیج ور(1889ـ1940)نے ڈالی۔ ان کے بعد سدیسو اراوگولواکرو بالا صاحب دیورس اس کے سر براہ بنے جنہوں نے یکے بعد دیگرے ثقافتی وطن پرستی کو تنظیمی شکل دی اور یہ نظریہ جڑ پکڑتا گیا۔ہندو میلوں سے پہلے ہندو سبھاوں کی تشکیل ہوئی اور1922ء میں ان سبھاوں سے ہندو مہا سبھا کی تشکیل ہوئی۔1923ء میں وی ڈی ساوارکر کا ہندوتوا کا فلسفہ سامنے آیا جس کے مطابق ہندو وہی ہے جو ہندوستان کو اپنی پترو بھومی (یعنی باپ دادا کی سر زمین) اور پنیہ بھومی (پاک سر زمین) مان لے ،بنابریں جو ہندو دھرم سے دور ہو گئے ہیں

ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ ہندوستان ہی پترو بھومی بھی ہے اور پنیہ بھومی بھی اور اِس کے علاوہ بھارت ماتا پر اپنے اعتقاد کے علاوہ انہیں ہندو سنسکرتی کی تعظیم کرنی ہو گی۔جن مذاہب کا جنم بھارتی دھرتی پرہوا، یعنی بدھ مت،سکھ مذہب، جین مت ،ان کی قبولیت کیلئے کوئی شرط عائد نہیں ہوئی البتہ وہ مذاہب جن کا پنیہ بھومی میں جنم نہیں ہوا، وہ ظاہر ہے بھارتی سنسکرتی سے خارج مانے گئے۔ ویر ساوارکر 1936ء میں ہندو مہا سبھا کے پردھان بنے اور ان کا فلسفہ ہندوتوا کے پرچارکوں کے لیے ایک لائحہ عمل بن گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ہندوستان میں بڑے پیمانہ پر اگر کسی ریاست میں مسلمان شدھی تحریک سے آج بھی متاثر ہیں تو وہ ہریانہ ہی ہے۔ہریانہ میں یہ متاثرین یا مرتدین آج ان تمام سماجی،معاشرتی،اورتہذیبی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں،جس میں ریاست کا ہر عام و خاص مبتلا ہے۔

ان کے نام ،ان کی معاشرت اور سماجی زندگی کے شب و روز کے معاملات غیر مسلموں سے علیحدہ نظر نہیں آتیں،یہ مرتدین اسلام کی بنیادی معلومات تک نا واقف ہیں۔نماز روزہ سے ناواقفیت آج بھی اسی درجہ میں ہے،پیدائش اور موت کے شرعی مسائل سے یہ ناوقف ہیں۔علاقہ میں اگر کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو جنازے کی نماز پڑھانے والا آسانی سے میسر نہیں۔تعلمی پسماندگی، غربت،افلاس، بے روزگاری،اور چھوٹے موٹے اور معمولی کاموں میں مصروف یہ مسلمان،در حقیقت مسلم معاشرے کی کسم پرسی کے عکاس ہیں۔مزید یہ بھی ان تمام غیر اخلاقی و غیر تہذیبی رسم ورواج میں مصروف ہیںجن میں ریاست کا ایک عام انسان ہے۔

اس پس منظر میں ہریانہ کی نئی حکومت اور مکمل اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھترنے اپنا قلم دان سنبھال لیا ہے۔کھتر آر ایس ایس کے لیڈر تھے جو خاموشی سے اپنی خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ بی جے پی میں انہیں سخت جانفشانی سے کام کرنے اور کام کروانے والے لیڈر کا درجہ حاصل ہوا ۔ 60سالہ کھتر جو کسی زمانہ میں ڈاکٹر بننے کے خواہاں تھے، اپنی تنظیمی صلاحیتوں کیلئے مانے جاتے ہیں۔ وہ ہنوز غیر شادی شدہ ہیں اور گذشتہ 40 سال انہوں نے آر ایس ایس کی خدمت میں صرف کیے ہیں۔ وہ پہلی بار ایم ایل اے منتخب ہوئے اور پہلی ہی بار میں وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک پہنچ گئے۔

آر ایس ایس کے پرچارک سے وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک کا سفر ،ایک طویل سفر ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ مسائل جو ریاست میں بے شمار پہلے سے موجود ہیں،ان کو کیسے حل کریں گے۔وہیں دوسری جانب یہ بھی دیکھنا ہے کہ ارتداد زدہ مسلمان اور ان کی وہ نئی نسل جو اسلام کو سمجھنے میں کوشاں ہے،ان سب کے لیے یہ نئی حکومت کیسی ثابت ہوگی؟کیونکہ شدھی جس کی تحریک 1925 میںشروع ہوئی تھی ،آج اس کے علمبردار مکمل اقتدار میں ہیں!

Muhmmad Asif Iqbal

Muhmmad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com