غریب کی آواز

Poverty

Poverty

تحریر : شفقت اللہ خان سیال
آج اس نفسا نفسی کے دور میں کسی کو بھی اپنے مسلمان بھائی کا کوئی احساس نہیں ہے۔کہ اس کے پڑوس میں جو لوگ رہ رہے ہے۔ ان کے گھر میں کچھ کھانے کو بھی ہے کہ نہیں۔ بس سب کو اپنے پیٹ کی پڑی ہے کہ میرا پیٹ بھر جائے لیکن یہ پیٹ ہے کہ بھرتے ہی نہیں۔ آج اس مہنگائی کے دور میں غریب انسان کی کوئی عزت ہی نہیں۔

امیر لوگ غریب کو ایسے دیکھتے ہے۔جیسے کہ وہ کو ئی عجیب مخلوک ہو ۔غریب سے ہاتھ ملاکر سلام نہیں لیتے۔کہ کہی ہمارے ہاتھ گندئے نہ ہو جائے۔جبکہ ہم سب مسلمان ہے اور ہم کو جو درس ملا ہے وہ یہ کہ سب مسلمان آپس میں بھائی ہے۔وہ گورا ہو یا کالا۔امیر ہو یا غیریب لیکن آج کے اس دور میں اگر کوئی غریب مر رہا ہے اس کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروانے کے لیے اخراجات نہیں۔ان کو سردیوں اور گرمیوں کے کپڑے لیے کر نہیں دے سکتا۔اگر اس کے گھر میں ایک وقت کھانا بنا تا بھی ہے تو دوسرے وقت کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہوتا ہے۔تو یہ احساس کسی کو نہیں کہ میں اپنے پڑوسیوں سے پتہ ہی کر لو کہ ان کے بچے کہی بھوکے تو نہیں سو رہے۔

یا کسی غریب کے بچے کو سکول کی وردی ۔فیس ۔کتابیں لے کردے دو۔نہیں یہ احساس ہم میں ختم ہو کر رہا گیا ہے۔اس نفسا نفسی کی دوڑ میں حال حرام کی تمیز بھول چکے ہیں ۔اور اس چکر میں ہے کہ میں بڑا بنو۔لیکن نہ جانے یہ کس سے بڑا ہونے کا سوچ رہے ہے۔آج راشی اور بد کردار لوگوں نے غریب عوام کا جینا موحال کردیا ہے۔جب کوئی غریب کسی دفتر میں کام کروانے جاتے ہے۔اس کا اس وقت تک کام نہیں ہوتا ۔جب تک وہ ان لوگوں کی جیب گرام نہ کرئے۔ورنہ روزآنہ دفتر کے چکر لگا لگا کر تنگ آجائے گا ۔اور اپنا کام تک بھول جائے گا۔اور اگر یہی غریب بیمار ہو جائے۔

Poor Peoples

Poor Peoples

تو اس غریب نے تو ان لوگوں کے پاس جانا ہے جو ہر گلی میں عطائیت کی دوکان لگا کر موت بانٹ رہے ہے۔یہ وہ عطائی ہے جو اپنے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک بنا کر غریب عوام میں موت بانٹنے میں مصروف ہیں۔جنہوں نے اپنے کلینکوں ہسپتالوں کے باہر ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کے بڑے بڑے بورڈ لگا رکھے ہے۔اور اور ایک ہی ڈاکٹرکے نام کے بورڈ نہ جانے کتنی جگہ پر دیکھوں گے۔ایسے نہ جانے کتنے لوگ ہے ۔محکمہ ہیلتھ جھنگ کے افسران نے جیسے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ایسے لوگ عطائیت کو بڑھا رہے ہے۔عطائیوں کے پرائیویٹ کلینکوں ہسپتالوں پر دن رات چھوٹے بڑے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔

ایسے عطائی بھی ماجود ہے۔جن کو اپنا نام بھی نہیں لکھنا آتا۔اور ایک ہی سرنج سے نہ جانے کتنے مریضوں کو ٹیکے لگا رہے ہے۔کئی مریض جو اپنا علاج کروانے آتے ہیں۔جن کے پاس ان کے لیے فیس کے پیسے نہیں ہوتے ۔وہ اپنا گھر کا سامان بھی فروخت کرکے ان کی فیس دیتے ہیں ۔یا پھر کسی کی منت سماجت کر کے ان سے ادھارلیے کر ان کو فیس ادا کرتے ہیں اور اپنا علاج کرواتے ہے۔اکثر مریض موذی امراض میں بھی موبتال ہو جاتے ہیں۔آج دیہی علاقوں میں دیکھوں یا شہر کی کسی بھی گلی میں آپ کو ہر جگہ عطائی ڈاکٹرنظر آئے گئے۔جو غریبوں میں دن رات موت بانٹنے میں مصروف عمل ہے۔اسٹیشن چوک جھنگ سٹی ندد بستی ملاح والی۔بستی گھوگھے والی۔محلہ کہارنوالہ۔موضع پاتوانہ۔پکے والہ۔اڈاچنڈ بھروانہ۔شاہ جیونہ۔منڈی شاہ جیونہ۔بڈھی ٹھٹی۔مسن ۔حویلی۔پیرکوٹ۔کوٹ خیرا وغیرہ جگہ جگہ عطائیت کی بھر مار ہے۔

ان میں کئی کلینک ایسے بھی ہے۔ جو کئی دفعہ سیل ہو چکے ہے۔لیکن محکمہ ہیلتھ جھنگ کے لوگوں کی مہر بنا یوں سے وہ آج بھی زوروشور سے چلا رہے ہے۔نہ جانے یہ کلینک یا ہسپتال دوبارہ کیسے کھول کر چلا رہے ہے۔کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔محکمہ ہیلتھ جھنگ کے ڈرگ انسپکٹر و افسران اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر ہے ۔جیسے کہ ان کو کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔اسی طرح آپ ماچھوال۔کوٹ شاکر۔ماڑی شاہ سخیرا۔بلو وغیرہ کے علاقے ہی لے لو ۔تو آپ کو عطائیت نظر آجائے گئی۔دیہی ہو یا شہری علاقوں میں تو ان لوگوں نے غیریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا بازار گرام کر رکھا ہیں۔میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وحکام بالا سے پر زور مطالبہ کرتا ہو کہ۔پہلی فرصت میں ضلع جھنگ میں عطائیت کے خلاف سخت ترین آپریشن شروع کیا جائے۔تمام عطائی ڈاکٹروں کے کلینک و ہسپتال سیل کر کے ان کے خلاف سخت ترین قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔اور محکمہ ہیلتھ جھنگ کے جو لوگ ان عطائیوں کا ساتھ دے رہے ہیں ان کو جلد از جلد نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔اور ان کی جگہ نیک اور ایماندار لوگ کو لایا جائے۔اور ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔تاکہ ہر آنے والے شخص کو پتہ ہوکہ برائی کا نتیجہ بھیانک ترین ہے ایسی ان لوگوں کو سزائے دی جائے۔۔ کوئی تو ہو گا جو میرئے ضلع جھنگ کی غریب عوام کے بارے سوچے گا۔

Shafqat Ullah Sial

Shafqat Ullah Sial

تحریر : شفقت اللہ خان سیال