واہگہ بارڈر پر قیامت صغری ٰ کا منظر،ہر طرف لاشیں، آہ و بکا، ایمبولینس کے سائرن، افرا تفری ،زخمیوں کی چیخ و پکار،یہ منظر تھا دو نومبر کی شام ساڑھے پانچ بجے کاجب پریڈ ختم ہونے کے بعد ایک خود کش نے اپنے آپ کو اڑا لیا اور قائد اعظم کے پاکستان کو لہو لہان کر دیا۔واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کے لئے 6 ہزار سے زائد خواتین، بچے اور مرد موجود تھے۔ جیسے ہی تقریب ختم ہوئی شہری اپنے گھروں کو جانے کے لئے باہر نکلے تو وہاں موجود حملہ آور نے شہریوں میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کے باعث وہاں موجود افراد خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس، ریسکیو 1122، ایدھی ،فلاح انسانیت فائونڈیشن، رینجر ز سمیت دیگر امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ نعشوں اور زخمیوںکو گھرکی ہسپتال پہنچایا جبکہ گھرکی ہسپتال میں جگہ اور ڈاکٹروں کی کمی کے باعث بیشتر زخمیوں کو شالا مار ہسپتال، سروسز ہسپتال اور میو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ خود کش دھماکے میں سمندری سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 9 افراد بھی جاں بحق ہو گئے جبکہ بیشتر ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 2 یا 3 افراد جاں بحق ہوئے ہیں ایک خاندان کے 5 افراد بھی جاں بحق ہوئے۔
رینجرز کے انسپکٹر رضوان، حوالدار شبیر اور سلطان جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اس دھماکے میں دیسی ساخت کا 25کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیاواقعہ کے بعد کافی دیر تک پولیس کے اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ دھماکہ خود کش تھا یا سلنڈر پھٹنے کے باعث پیش آیا۔ بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس دھماکے کو خود کش دھماکہ قرار دیا گیا۔ واہگہ بارڈر پر خودکش دھماکہ بارڈر پر پریڈ ختم ہونے کے نصف گھنٹہ بعد ہوا۔ دہشت گرد جب پریڈ ایریا تک نہیں پہنچ سکا تو اس نے اپنے آپ کو گیٹ کے باہر اڑا دیا۔ واہگہ بارڈر کیلئے 500 گز کا حفاظتی حصار بنایا ہوا ہے، سخت سکیورٹی کی وجہ سے دہشت گرد وہاں پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دہشت گرد پریڈ ایریا تک پہنچ جاتا تو بہت زیادہ نقصان ہوتا۔
لوگ گیٹ کے باہر چائے کی دکانوں، ہوٹلوں پر کھا پی رہے تھے، اسی جگہ پر این ایل سی (ڈرائی پورٹ) کو جانے والے 100، 200 افراد اور ملحقہ گائوں کے افراد بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔دہشت گردوں نے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واہگہ بارڈر پر حملے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات ملنے کے حوالے سے باخبر ہونے کے باوجود اپنا مشکل ٹارگٹ حاصل کیا اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے محرم الحرام میںمذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بجائے پہلی مرتبہ پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے والے محب وطن شہریوں کونشانہ بنایا۔ حملے کے بعد سکیورٹی اداروں کی پلاننگ کا فقدان نظر آیا۔ دہشت گرد بھی اس حوالے سے باخبر تھے کہ حکومت کو پتہ ہے مگر اس کے باوجود بھی دہشت گردوں نے اپنا ٹارگٹ تبدیل نہیںکیا۔ ماضی میں دہشت گرد محرم الحرام میں مجالس و جلوسوں و دیگر مذہبی تقریبات کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر فرقہ وارانہ و مذہبی دہشت گردی پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔
دشمنوں نے اس افسوسناک واقعہ میں معصوم محب وطن فیملیز و شہریوں کو نشانہ بنایا۔ واہگہ بارڈر تک جانے کے لئے تین مقامات پر رینجرز کے چیکنگ ناکے ہیں، مگر واہگہ بارڈر کے ملحقہ دیہاتوں سے یہاں آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پہلو پر بھی غور کررہے ہیں کہ دہشت گرد کسی گائوں میںچھپا بیٹھا ہو مگر مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گرد نے 25 کلو وزنی دھماکہ خیز مواد پر مبنی جیکٹ استعمال کی جس میں بال بیرنگ، لوہے کے کیل، پیچ اور ٹکڑے شامل تھے۔ دھماکے کے حوالے سے حملہ آوروں کی پوری ریکی اور منصوبہ بندی تھی جس وجہ سے اتنا بڑا جانی نقصان ہوا۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستان پائندہ باد کی گونج ختم ہونے کے کچھ لمحوں بعد حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
Prof. Hafiz Muhammad Saeed
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے کافی دیر بعد تک بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مہارت نظر نہ آئی اور نہ ان کے پاس ایسے آلات تھے کہ وہ بتا سکتے کہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا۔ انہوں نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے جسموں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا۔ فرانزک شواہد، موبائل فرانزک لیبارٹری ٹیسٹ اور واقعاتی و طبعی شواہد کو اکٹھا اور محفوظ کرنا تو دور کی بات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ایسی صورتحال میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیںکہ واہگہ بارڈر پر ہونے والے دھماکہ میں بھارت ملوث ہے۔ کنٹرول لائن پر جارحیت کے بعد اب پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کی کاروائیاںکی جارہی ہیں۔وطن عزیز پاکستان پر پراکسی وار مسلط ہے۔
ملک کو منظم سازشوں کے تحت میدان جنگ بنایا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان مصلحت پسندی ترک کر کے بھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعدجہاں مسلم کش فسادات اور نہتے کشمیریوں کے قتل عام میں اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری جانب اس نے پاکستان میں بھی دہشت گردی کی کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ بھارت سرکار پاکستان کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے جانے کا جواب کنٹرول لائن پر فائرنگ اوردھماکوں کے ذریعہ نہتے شہریوں کا قتل عام کر کے دے رہی ہے۔دشمنان اسلام کی سازشوں کے مقابلہ کیلئے ملک میں اتحاد و یکجہتی کاماحول پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسلام دشمن قوتیں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، تخریب کاری اور دہشت گردی کو پروان چڑھایا جائے تاکہ وہ پاکستان کی کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔
اس مقصد کیلئے اتحادیوںکی جانب سے بھارت کو مکمل شہ دی جارہی ہے۔ واہگہ بارڈر پر ہونے والے خودکش حملے کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حملہ آور بارڈرکے علاقے میں کئی دن سے موجود تھا’خودکش حملہ آور کے اس کے ساتھی وہیں قریب ہی موجود تھے جو اس کی مانیٹرنگ کر رہے تھے’حملہ آور کافی دیر سے جائے وقوعہ پر موجود تھا اور کئی گھنٹے تک ایک ہوٹل میں بیٹھا رہا جہاں اس نے کھانا بھی کھایا اور چائے ‘ بارود گاڑی میں پہنچایا گیا’حملہ آور کا اصل ٹارگٹ پریڈ والے حصے میں خود کو اڑانا تھا لیکن سخت سیکیورٹی کی وجہ سے اندر داخل نہ ہو سکا۔ خودکش حملہ آور کے اس کے ساتھی وہیں قریب ہی موجود تھے جو اس کی مانیٹرنگ کر رہے تھے، رپورٹ میں اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور کی جیکٹ اور بارودی سامان علیحدہ سے کسی بڑی گاڑی کے ذریعے وہاں پہنچا اور خودکش حملہ آور کو جیکٹ بھی وہیں ملی۔
Wagah Parade
حملہ آور کا اصل ٹارگٹ پریڈ والے حصے میں خود کو اڑانا تھا لیکن سخت سیکیورٹی کی وجہ سے اندر داخل نہ ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور اور اس کے پیچھے کام کرنے والی تنظیموں کو بھارتی مدد حاصل ہے اور ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت اس جگہ کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ بارڈر ایریا میں نہ صرف سرچ آپریشن جاری ہے بلکہ اردگرد کام کرنے والے چند دکانداروں کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ واہگہ بارڈر کے قریب ہونے والے دھماکہ میں 60 سے زائد افرادکے جاں بحق اور بیسیوں افراد کے زخمی ہونے پر اٹھارہ کروڑ پاکستانی سخت صدمہ سے دوچار ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرے اور اعلیٰ سطحی پیمانے پر تحقیقات کر کے تخریب کاری و دہشت گردی میںملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔