شہدائے جموں کی یاد میں

Jammu Martyrs

Jammu Martyrs

تحریر:ابوالہاشم

چھ نومبر ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ہندوئوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صرف ایک ہفتے کے اندر تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔ اس شرمناک واقع میں مہاراجہ کی فوج میں شامل پٹیالہ اور سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کا کردار انتہائی گھناوانا اور سفاکانہ رہا اور اس طرح کا واقعہ تاریخ میں ایک سیاہ باب سے کچھ کم نہیں۔ آزادی کی خاطر مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔یہ دن بالعموم ملت کے کروڑوں انسانوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے اور بالخصوص مسلمانان جموں کشمیر اس عظیم سانحہ کو اپنے سینوں میں تروتاہ پاتے ہیں اور ان سسکتی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے ایک رات میں مسلمانوں کی سینکڑوں بستیوں کو نذر آتش کیا گیا ،ہزراوں نہیں بلکہ لاکھوںمسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اکتوبر 1947ء میں جموں کا شہر وقتی طور پر محفوظ تھا لیکن گرد و نواح میں لوٹ مار، قتل و غارت اور بستیاں اور گائوں جلانے کی وارداتیں ہونے لگیں۔نوجوان لڑکیاں اغوا ہوئیں۔ اور ظالم سکھوں اور ہندوئوں کی حراست کی بھینٹ چڑھیں بعض نے خوف و ہراس سے اپنی جان خود لے لی۔ کنوئوں اور دریائوں میں چھلانگ لگا دی۔ چھتوں سے چھلانگ لگائی اور موت کو گلے لگایا۔ بعض جگہوں سے لوگ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور چھپتے چھپاتے تکلیفیں اٹھاتے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ عزت لٹا کر مال و متاع کر اپنے عزیز و اقارب کی شہادت کا نذرانہ دے کر بے شمار لوگ پاکستان آئے خاندان بٹ گئے۔

کوئی پرسان حال نہ تھا۔ شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جو عزت محفوظ لے کر اپنے پورے خاندان کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوا ہو۔ جموں کے گرد و نواح میں ایسے واقعات مہینوں سے ہو رہے تھے لیکن ابھی اس شہر کے لوگ خوف و ہراس اور بے یقینی کیفیت کے باوجود محفوظ تھے۔ رام نگر، ادھم پور اور ریاست کے مسلمان تقریباً ختم ہو گئے تھے۔ ان کے خون سے زمین بھی سرخ ہو گئی تھی۔ حکمران خود اس قتل عام میں شریک تھے۔ اس لئے لوگوں کی مدد کے لئے حکومت موجود نہیں تھی۔ جموں کے گرد و نواح میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ڈوگرہ فوجوں، گورکھا رجمنٹوں، نابھہ اور پٹیالہ کے سپاہیوںنے جموں شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ خبر آگ کی طرح جموں شہر میں پھیل گئی۔ مسلمان پہلے ہی ہراساں تھے۔ اکا دکا لوگوں کے پاس ہتھیار تھے۔ لوگوں کی چیخ و شکار اور خواتین کی آہوں اور فضا گھٹن کا شکار ہو گئی تھی۔

لوگ اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ اذانوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔ بسا اوقات عجیب طرح کا سناٹا محسوس ہوتا تھا۔ بازار ویران تھے۔ دکانیں بند تھیں۔ لوگوں نے گھروں میں راشن جمع کر کے رکھا ہوا تھا۔ لیکن اس گھٹی ہوئی افسردہ فضا کا خوف ایسا جان لیوا تھا کہ لوگ سانس لینا بھی بھول گئے تھے۔ محلے کے لوگ اکھٹے ہو گئے تھے۔ بڑے گھروں میں سب نے مل جل کر پناہ لی تھی۔ او رموت کی دہلیز پر کھڑے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔حکومت وقت ہی دشمن بن گئی تھی۔ حکومت جو شہریوں کی جان و مال کی محافظ ہوتی ہے۔ ہندو سکھ، ڈوگرہ اور گورکھا لوگوں کو مہاراجہ ہری سنگھ اس کی متعصب رانی تارا دینی اور اس کے گرو کی مدد اور حمایت حاص تھی۔ جبکہ مسلمانان جموں اکیلے تھے، تنہا تھے۔

Muslim

Muslim

مسلم کانفرنس کے لیڈر جیلوں میں تھے۔حکومت نے اعلان کیا کہ سارے مسلمان ایک بستر اور سوٹ کیس لے کر پولیس لائن میں پہنچ جائیں۔ جہاں سے انہیں بحفاظت پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔ پولیس لائن میں مسلمان میدان حشر کی طرح جمع ہوئے۔ لیکن کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ کوئی سہولت نہیں تھی۔ کئی دن بھوکے سوکھے رہتے انہیں گزر گئے۔ کئی کمزور اور بھوک کی تاب نہ سہنے کی وجہ سے موت کے ہمکنار ہو گئے۔ بے گوروکفن اپنوں نے انہیں پولیس لائن میں ہی دفنا دیا۔ بھوک تکلیف اور ڈر سے لوگوں کی زبانیں خشک ہو گئی تھیں۔ آنسو تھم گئے تھے۔ اور وہ ویران نگاہوں سے خلا یں دیکھتے تھے کہ شاید امید یا زندگی کی کوئی رمق نظر آ جائے۔آخر کار 5نومبر 1947ء کی ایک دوپہر کو 26لاریوں میں مسلمانوں کو بٹھا کر پاکستان پہنچانے کے جھانسے میں کھٹوعہ کی طرف سابند روڈ لے جایا گیا۔ لوگ حیران تھے کہ پاکستان کی طرف تو یہ سڑک نہیں جاتی۔ پھر انہیں یہاں کیوں لے جایا جا رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے لیکن کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ سب اندھیرے میں تھے اور اس امید میں دبکے ہوئے بسوں میں بیٹھے تھے کہ شاید انہیں حکومت باحفاظت پاکستان پہنچا دے۔سابند پہنچ کر ایک قیامت برپا ہو گئی۔

مسلح ہندو جن سنگھی، سکھ، گورکھے ڈوگرے چاروں طرف سے نہتے مسلمانوں پر ہر طرح کے ہتھیاروں سے ٹوٹ پڑے۔ کلہاڑیاں کرپانیں، نیزے، تلواریں سکھ استعمال ہو رہا تھا۔ لوگ بھاگنے لگے۔ تو ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ لمحوں میں اس جگہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ جو لوگ بھاگنے میں کامیاب ہو سکے وہ کئی دنوں میں دن کو چھپتے چھپاتے راتوں کو سفر کرتے پاکستان کی سرحد تک پہنچ سکے لیکن اپنا سب کچھ لٹا کر، جان، مال، آن، آبرو، وطن سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ جسم لہولہان تھے۔ ذہن خالی تھے۔ نگاہیں ویرا نتھیں۔ اپنوں کی تلاش کرتی تھیں۔ کہیں باپ کا پتہ نہ تھا۔ کہیں ماں نظر نہیں آتی تھی۔ جوان لڑکیاں ماں باپ کے سامنے اغوا ہوئیں۔ جوان بیٹے ماں باپ کے سامنے قتل ہوئے۔ کئی والدین نے اپنی جوان بیٹیوں کو خود پانی میں دھکا دے کر ڈبو دیا۔لوگوں کو مشین گنوں سے بھون دیا گیا۔ تلواروں سے ان کے بدن تن سے جدا کر دیے گئے۔ ڈوگرہ حکمران اس خونی کھیل کے بعد خود بھی خس و خاشاک کی طرح مٹ گئے۔

ملک گیا، بادشاہت گئی، بھارت کی حکومت نے ان سے سب کچھ چھین لیا۔ معزول مہاراجہ نے زندگی کے کئی سال بمبئی میں گمنامی کی زندگی گزاری۔ مہارانی تارا دینی بھی چند سال اور دہلی میں ایک عام شہری کی طرح پشیمانی سے ختم ہو گئی۔ نہ شوہر کبھی ملا۔ نہ بیٹا مل سکا۔ تخت و تاج کے ساتھ اس کا سکون اور آرام بھی غارت ہو گیا۔ زندگی کے چند سال انہوں نے اس طرح گزارے یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں یہ مظالم یاد نہ آتے ہوں۔ جو انہوں نے اپنی رعایا پر ڈھائے۔ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کا مقصد ریاست میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔آج اس واقعہ کو عرصہ بیت گیا لیکن کشمیری و پاکستانی قوم ہر سال شہدائے جموں یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔اس دن کشمیری قوم شہدائے جموں کی قربانیوں کو یاد کر تی ہے تو ان کی تحریک میں مزید ولولہ و جوش پیدا ہوتا ہے۔

یہ شہداء کے خون کا معجزہ ہے کہ کشمیرمیںآزادی کی تحریک پوری شد ومد سے جاری ہے،ہندوستان کشمیریوں کو طاقت کے بل بوتے پر غلام بنانے میں ناکام ہوچکاہے،کشمیریوں نے ثابت کردیا کہ وہ آزادی سے کم کوئی حل قبول نہیں کریں گے۔عالمی سطح پر پوری دنیا ہندوستان کے اس موقف کو مسترد کرتی ہے کہ کشمیرا س کا ٹوٹ انگ ہے ،عالمی سطح پر اس حمایت کو بروکارلاکر ہندوستان کو مجبور کیا جاسکتاہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق دے۔کشمیری آج بھی آزادی کی تحریک کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں ۔انکا ہر دن یوم سیاہ ہے۔بھارتی فوج کے مظالم انکی تحریک آزادی کو دبا نہیں سکے،جب بھی ان درندوں کے ظلم میں اضافہ ہوتا ہے کشمیریوں کی تحریک میں اتنی ہی زیادہ تیزی آتی ہے۔

Pakistan

Pakistan

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیری پاکستان کو اپنا دوسرا وطن سمجھتے ہیں ۔بھارت کے ساتھ پاکستان کی بات چیت ایک فضول مشق ہے کیونکہ اب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے 150بار بات چیت ہو ئی تاہم کچھ حاصل نہ ہوا۔ جموں و کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت کے سوا اور کو ئی حل قابل قبول نہیں تو پاکستانی قوم بھی آزادی کشمیر کو تکمیل پاکستان مانتی ہے۔پاکستانی قوم اور حکومت نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی اور کشمیریوں کی تحریک کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ آج بھی بھارت مقبوضہ کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

تحریر:ابوالہاشم
مسئول جماعة الدعوة لاہور
برائے رابطہ:03022588674