سفرِ حج نہم

Taxi

Taxi

تحریر: میر افسر امان

ہمیں ٹیکسی میں بیٹھا کر انہوں کہا کہ ہم بعد میںآ جائیں گے۔ جو بعد میں پیدل سفر کر کے کیمپ میں پہنچے تھے۔خیر ہم تین مرد اور دو خواتین ٹیکسی میں سوار ہوئے جو راستے میں بہت ہی پریشان ہوئے تھے۔ ہم خوش تھے کہ اپنے کیمپ آسانی سے پہنچ جائیں گے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ٹیکسی والے نہیں ہمیں منیٰ کیمپ نمبر ٧٥کے سامنے پہنچانے کے بجائے دُور منیٰ کے ایک کونے پر اُتار دیا۔ ہمارے بیٹے نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ طے تو منیٰ تک کا ہوا تھا آپ ہمیں یہاں اتار رہے ہو وہ عربی میں کہتایہی منیٰ ہے ۔ہم چار فرد ٹیکسی میں ہی بیٹھے رہے کہ فیصلہ ہو تو اُتریں۔ تکرا ہو رہی تھی کہ سامنے ایک صاحب گاڑی سے اُتر رہے تھے۔

میرے بیٹے نے اس سے شکایت کی کہ یہ ٹیکسی والا ہمیں طے شدہ منزل پر نہیں پہنچا رہا اور نہ ہی اس نے ہمیں بتایا کہ یہاں تک ہی لائے گااب یہیں اترنے پر زرو دے رہا۔وہ صاحب کچھ کچھ انگلش جانتے تھے۔ اس نے ٹیکسی والے سے بات کی۔ ٹیکسی والا عربی میں اسے کہتا کہ شرتے آگے نہیں جانے دیتے۔ وہ انگلش میں ہمارے بیٹے کو سمجھاتا کہ یہ معاملہ ہے۔ اس کے بعد بیٹے نے مجبوراً ہمیں ٹیکسی سے اترنے کا کہا اورہم اتر آئے۔ قصہ مختصر کہ ٹیکسی والے نے اپنا طے شدہ کرایہ ٢٥٠ ریال تو ہم سے وصول کر لیے اور ہمیں آدھے راستے میں ہی چھوڑ گیا۔اس وقت ہمارا قافلہ دو عورتوں اورتین مردوں اور دو ویل چیئر پر مشتمل تھا۔شاہراہ عبدا لعزیز پر اس سمت سے چڑھائی ہے۔ اس لیے ویل چیئر چلانے میں بہت ہی دشواری ہوتی ہے۔ میرے بیٹے کے پسینے نکل رہے تھے میں بار بار اسے کہتا بیٹا میں کچھ قدم چل سکتا ہوں مگر میرا بیٹا اکثر نہ مانتا اور تکلیف برداشت کرتا رہا۔

بہت ہی مشکل سے میں نے اسے راضی کیا اور کچھ قدم پیدل چلا وہ بار بار مجھے ویل چیئر پر بیٹھنے کا کہتا اور مجھے ویل چیئر پر بیٹھا ہی دیتا۔یہی معاملہ دوسرے صاحب کا تھا۔ ان کی خاتون کبھی ویل چیئر سے اترتی اور کبھی بیٹھتی۔ بلا آخر تھک کر ہمارا قافلہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔میرا بیٹا ایڈوانس بڑھ کر سفر کا جائزہ لینے آگے گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور بتایا کہ برابر والا روڈ کراس کر کے ریلوے اسٹیشن نمبر ٢ قریب ہے۔ہم وہاں سے منیٰ اپنے کیمپ میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے بعدہمارا قافلہ تازہ دم ہو کر چل پڑا۔ ہم نے د وویل چیئرز کے ساتھ برابر والا روڈ کراس کیا۔ بیٹے نے پھر ہمیں ویل چیئر پر سوار کر دیا۔ ہمارا قافلہ ریلوے اسٹیشن نمبر ٢ کے طرف روانہ ہوا۔بھیڑ میں بچتے بچاتے تھوڑی دیر بعد ریلوے اسٹیشن نمبر ٢پہنچ گئے۔

وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ریل ٤ بجے تک بند ہے۔یہ تو سراب والی بات ہوئی کہ بظاہر تو منزل تک پہنچے مگر وہاں پتہ چلا یہ توسراب ہے۔بہر حال ہمت کی اور آگے بڑنے لگے۔ اللہ کا کرنا کہ وہاں پر راہنمائی کے لیے پاکستان مشن کا عملہ موجود تھا۔ ہم نے ان سے رابطہ کیا انہوں نے بتایا یہاں سے کیمپ نمبر ٧٥ تقریباًآدھا کلومیٹر ہے۔ اس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ چلو منزل تو قریب ہے۔ ہم ویل چیئر کے ہینڈل پر ہاتھ ٹیک کر پیدل چل رہے تھے۔ ہمیں بیٹے نے پھر ویل چیئر پر سوار کر دیا اور کیمپ کی طرف چلنا شروع کیا۔تھوڑی دیر تک تھکے ہارے چلتے چلتے ہم کیمپ نمبر ٧٥ کا سامنے پہنچ گئے۔منزل پر پہنچ کر اس درماندہ قافلے کا کیا حال تھا بیان نہیں کر سکتے۔

یہ بھی ہماری اپنی غلطی تھی ہمیں منیٰ جانے کے بجائے جمرات تک ٹیکسی کرنی تھی وہاں سے ریل کے سفر کے ذریعے منیٰ تک جانا تھا۔ بحر حال ہم ر ات کے وقت ١١ ذی الحجہ کو اپنے کیمپ نمبر٧٥ پہنچ گئے۔ آرام سے رات کیمپ میں گزاری۔ ایسا ہی حال ہمارے ایک دوسرے قافلہ جو ٥ افراد پر مشتمل تھا سنایا۔وہ بیت اللہ سے نکل کر سرنگ کراس کر کے ایک ویگن پر سوار ہوئے ویگن انہیں تقریباً تین گھنٹے اِدھر اُدھر لے جاتی رہی اور آخر میں منطقہ عزیزیہ کے قریب چھوڑ دیا۔ جبکہ اس قافلہ نے منیٰ جانا تھا۔ وجہ راستے بند ہونا، راستے معلوم نہ ہونایا رش ہونا لگتا ہے۔ ایک دوسرے صاحب نے جن کا کیمپ نمبر ١٨ہے جو ہمارے کمرے میں اپنے کزن سے ملے آتے ہیں۔

جن کا کیمپ جمرات کے قریب ہے ان کو لوکل بسیں اور ویگنیں ملیں۔ وہ کیمپ سے بس میں ٣٠ ریال دے کر سوار ہوئے اور بیت اللہ آئے اور واپس ٣٠ ہی ریال دے کر ویگن میں سوار ہوئے اور اپنے کیمپ نمبر ١٨ میں پہنچ گئے۔١٢ ذی الحجہ کو ہم چار بندوں پر مشتمل قافلہ جمرات کو کنکریاں مارنے منیٰ سے نکلے۔ اپنا تمام سامان ساتھ لے لیا۔ ہمارے کیمپ نمبر ٧٥ اور خیمہ نمبر اے ٢٨ کے باہر جمرات جانے کے لیے تین شاہرا ئیں ہیں جو سیدھی جمرات جاتیں ہیں۔ان پر وقت مقررا پر بسیں چلتیں ہیں۔ جب ہم نکلے تو بسیں شروع نہیں ہوئیں تھیں۔

Jamarat

Jamarat

ہم نے تین روڈ کراس کیے۔ ریلوے اسٹیشن کے لیے ویل چیئر سمیت لفٹ میں سوار ہو کر ریلوے پلیٹ فارم کے سامنے کھڑے ریل کا انتظار کرنے لگے۔ریل آگئی ہم سوار ہوئے اور ١٠ منٹ میں ریل نے ہمیں جمرات پہنچا دیا۔ریلوے اسٹیشن پر مختلف مما لک کے گائیڈ حاجیوں کو راستے بتا رہے تھے۔ ریلوے اسٹیشن کے راستوں میں بھی یہی گا ئیڈ حاجیوں کی راہنمائی کر رہے تھے۔جمرات کو کنکریاں مارنے کے لیے آج بھی بہت رش تھا۔ جیسے کہ ہم نے اپنے بیٹے کو کنکریاں مارنے کے لیے اپنا خلیفہ بنایا ہے وہ ہمیں ایک جنگلے کے پاس بیٹھا کر جمرات کو اپنی اور ہماری کنکریاں مارنے چلا گیا۔جنگلے کے ساتھ ساتھ اور بھی معزورین بیٹھے تھے۔شاید ان کے لواحقین بھی ان کے حصے کی کنکریاں مارے گئے ہوں گے۔ ہمیں جنگلے سے سامنے بڑا جمرات، درمیان جمرات اور چھوٹا جمرات نظر آرہا تھا۔ سامنے تو تینوں ایک ہی سائز کے نظر آ رہے تھے۔تینوں جمرات کے اوپرچھائوں کے لیے شیڈ بنایا ہوا ہے۔جن حضرات کو آج یعنی ١٢ ذ ی الحجہ کو تیسرے دن کنکریاں مار کر حج مکمل کرنا ہے ان کا رش تھا۔اس کے بعد چوتھے دن کنکریاں مار کر لوگوں کو منیٰ کی خیمہ بستی خالی کرنی ہے۔ منیٰ کا ایک سر ا جمرات کے پاس ہے اور دوسرا روڈ ملک فیصل تک ہے۔پورا مکہ خشک پہاڑوں کے درمیان ہے۔

کھانے کی میز پر ایک حاجی صاحب نے بتایا کہ وہ طائف سے ہوکر آیاہے اس کا بھائی طائف میں ملازمت کرتا ہے ۔وہ اس حاجی صاحب کو طائف سے لینے آیا تھا ۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ طائف کا سفر١٢٠ میٹر ہے۔ طائف سات ہزار فٹ بلندی پر ہے۔اس وجہ سے سرد ہے اور روزانہ بارش ہوتی ہے۔ اس کا موسم تقریباپاکستان کی مری جیسا ہے۔۔١٢ ذ ی الحجہ کی عصر کو ہم اپنے رہائش گاہ عزیزہ شمالی پہنچ گئے۔مکہ کے وقت کے مطابق عزیزہ کے مرغے فجر سے پہلے ٤ بجے آذانیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے بھی ٤ بجے پر موبائل کاالارم لگا رکھا ہے۔ اُدھر مرغے آذانیں دیتے ہیں اِدھر ہمارا موبائل بول پڑتا ہے۔ وضو اور نفل ادا کرنے کے بعد روم میٹس کو ہم جگا دیتے ہیں اور لائٹ آن کر دیتے ہیں۔ ایک کراچی کے حاجی صاحب سے معلوم ہوا کہ حرم کے قریب ہی بکرا منڈی ہے۔ ہمارے کیمپ کے اسی حاجی صاحب نے بتایا کہ انہوں ٥ بکرے اس منڈی سے خریدے اور ان کے جاننے والے جو یہاں مکہ میں ملازمت کرتے ان کو ساتھ ملا بکروں کو ذبح کروایا ۔قصائی نے ٥ بکروں کے فی بکرا ٢٠ ریال لیے۔

بقول اس حاجی صاحب کے تین بکروں کا گوشت ان کو دیا اور دو بکرے انہیں نے پکا کر ہمیں پہنچائے جو ہم نے کیمپ میں دوسرے حا جیوں کے ساتھ مل کر کھائے۔ بکرے منڈی میں ٢٨٠ سے ٤٤٠ ریال تک کے بکرے ملے رہے تھے۔ آج ١٥ ذ ی الحجہ ہے مکہ میں زور سے بادل گرجے اور آدھا گھنٹہ موسلا دار بارش ہوئی۔ ١١ ذ ی الحجہ کو بھی چند منٹ تک ہلکی سی بارش ہوئی۔١٣ ذ ی الحجہ کو ہم منیٰ میں تھے کہ ایک دم بادل کڑکے اور چند منٹ کے لیے موسلا بارش ہوئی اور موسم خشگوار ہو گیا۔۔ ایک حاجی بلال شاہ نے نیچے رہائش کی مسجدمیں حاجیوں کی تربیت کا پروگرام بنا رکھاتھا مناسک حج کی تربیت دیتا رہا۔خواتین کے لیے بھی ایسے پروگرام رکھے تھے۔ رہائش سے منیٰ تک ہماری بلڈنگ کے لوگوں نے پیدل سفر کیا۔ منیٰ اورعرفات میں١٠٩ پاکستانی مکاتب تھے۔

ہمارے بیٹے نے ہمیں کل چکن تکہ کھلایا اور روم میٹ سے کہا کہ ابو کو طاقت ور بنا کر گھر لے جانا کہیں گھر والے یہ نہ کہیں کہ ابو کو ٤٠ دن میںکمزور کر لائے ہو۔ ہم نے بھی موقعے سے فائدہ اُٹھایا اور خوب کھایا۔ بیٹے نہ کہا کہ تین دن ایسا ہی کروں۔ حسن اتفاق کہ بیٹے صاحب کوآج سخت نزلے نے پریشان کر دیا اور چکن تکہ بیچ ہی میں رہ گیا۔ کل جمعہ ہے اور ہمیں وداع طواف کے لیے جانا ہے۔ وقت کافی ہونے کی وجہ سے حاجی صاحبان نے دل کھول کر نفلی عمرے کئے۔ لاتعدادطواف بھی کیے۔ ہمارے گروپ کے ایک حاجی صاحب نے ٧ عمرے اور لاتعداد طواف کیے۔ ایک نے دو ایک نے ایک نفلی عمرہ کیا۔ آج چار آدمیوں کا قافلہ جمعہ کی نماز اور طواف الوداع کرنے عازم بیت اللہ ہوا۔

پہلے میدان گرونڈ میں بس نے پہنچایا اور اس کے بعد شٹل بس میں ٹنل کراس کر کے بیت اللہ کے قریب پہنچے۔آہستہ آہستہ آگے بڑھے گئے۔ بیت اللہ میں آخری گولائی پر جانے کے لیے قطار میں لگ گئے۔ یہ گولائی ویل چیئرز والوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔ تھوڑی جد و جہد کے بعد راستہ مل گیا۔ رش اس وجہ سے تھا کہ ویل چیئر کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی مطاف میں جگہ نہ ہونے اور رش سے بچنے کے لیے آخری والی گولائی پر طواف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بحر حال ہم نے طواف وداع واجب مکمل کر لیا۔ اب ہمارا حج مکمل ہو گہا۔ طواف وداع اس بات کا عزم ہے کہ اے مالک اب اب ہم میثاق ازل کی تجدید،کہ صرف تیری ہی بندگی کریںگے ۔
قارئین! جب طائف کا ذکر آتا تو انسان کے دل میں کانٹے چھبنے لگتے ہیں کہ کس طرح رسولۖاللہ کو طائف کے سرداروں نے تکلیف پہنچائی تھی۔ اُوباش بچوں کو ان کے پیچھے لگا دیا تھا وہ ان پر پتھربرسا رہے تھے اور رسولۖ رحمت نے پھر بھی ان کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا اور پہاڑوں کے فرشتے کو سزا دینے سے منع کیا اور کہا کیا پتہ کل ان ہی میں سے اسلام لانے والے پیدا ہوں۔آج طائف کے لوگ رسولۖ اللہ کی محنت ہی کی وجہ سے آرا م و آسائش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com