موجودہ زمانے میں علم سے وابستہ افراد کی جانب سے عجیب و غریب قسم کے خیالات سامنے آرہے ہیں ۔جس میں کوئی یہ کہتاہے کہ جدید و دنیوی علم کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا حرام ہے تو کوئی یہ کہتاہے کہ ہمیں قدیم و دینی علوم کی حاجت ہی نہیں ۔جن علوم سے وابستگی کو حرام سمجھا جاتا ہے ان میں میڈیکل سائنس، علم کیمیائ، علم ریاضی، علم فلکیات، علم فیزیاء اور انجینئرنگ وغیرہ علوم شامل ہیں۔ اسی سبب سے دینی و دنیوی علوم کے حاملین کے مابین سخت قسم کے اختلافات بھی معرض وجود میں آئے اور ان کے مابین دوریاں اس قدر پروان چڑھیں کہ ایک دوسرے کو مادہ پرست و تنگ نظر تک کہا جانے لگا۔
دوسری طرف سے جدید علوم سے وابستہ افراد انہوں نے ان دینی علوم سے دوریاں اختیار کرلی ہیں جس کی شدت یہاں تک ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی تعلیمات سے کوسوں دورجاپہنچے ہیں۔گویاکہ علم کے میدان میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہاہے۔علم حقیقی و علم فرعی کے مابین دوریاں قائم کردی گئی ہیں جس کی بدولت معاشرے میں متعدد خرابیاں پایہ عروج کو پہنچ چکی ہیں اور دوسری جانب علم دین سے وابستہ افراد اسلام کے پیغام کو جدید طرز پر منتقل کرنے میں یا پھر دنیا کی قیادت کرنے میں جو ان کی ذمہ داری لگائی گئی تھی اس سے تہی دام ہوچکے ہیں۔
اس سلسلہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعة الازہر (مصر) سے تعینات اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی جدید علوم میں خدمات سے واقفیت و متعارف کرانے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔اس سیمینارکو ڈاکٹر خالد فواد( سربراہ بعثة الازہر) نے ترتیب دیا۔جس میں ڈاکٹر حسن عبدالباقی،ڈاکٹر عبدالحفیظ عسیلی اور ڈاکٹر محمد علی الناشی صاحب نے موضوع سے متعلق عالمانہ و فاضلانہ گفتگوکی۔اس سیمینار میں ہمیشہ کی طرح ایک مصری استاذ نے اپنا علمی و تحقیقی مقالہ پیش کیا۔اس مقالے کو قارئین کے استفادے کے لیے تحت السطور میں نقل کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر عمر الحمزاوی نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علم کی دنیا میں مسلمانوں کی ترقی و عروج کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا اور یہ عروج اپنی بلندی کا زمانہ مسلسل آٹھویں صدی ہجری تک چلتا رہا۔مسلمانوں کو علم کی دنیا میں جو عروج ملااس کے لیے بہت سے مواقع حکمرانوں کی جانب سے اور خود اپنی لگن و تڑپ کے جذبے سے سرشار علمانے نمایہ کردارنبھایا۔یہ وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جس نے بھی مثلاًمغرب نے جو علم کی دنیا میں ترقی کی ہے اس نے یہ سب مسلمانوں کے تجربات و خدمات سے ہی خوشہ چینی کا ثمرہ ہے۔مسلمانوں نے ناصرف علوم حقیقی و شرعی (قرآن و حدیث،فقہ ،تفسیر،قرأت،علم لغت و ادب اور علم تاریخ )کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا بلکہ جدید دنیوی علوم (میڈیکل سائنس، فارمیسی، کیمسٹری، فزکس، ریاضی، علم فلکیات، انجینئرنگ اور معاشرتی علوم میں بھی اپنا نمایاں حصہ پیش کیا۔
عرب اسلام کے ظہور سے قبل علم واقعی و تطبیقی سے ناآشنا تھے اور ان کو اس سے متعارف اسلام نے ہی کرایا۔اسی سبب انہوں نے دوسری قوموں کے علوم کی جسجتو شروع کردی۔ جب مسلمان مستحکم ہوئے تو اسلامی دعوت کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے انہوں نے پیش قدمی کی جس کی بدولت ان کو بے پناہ فتوحات ملیں۔ان ہی فتوحات کے آغاز کی بدولت وہ مصر و شام،فارس کو بھی مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے۔تو اسی سے ہی فارسی ،یونانی اور ہندی زبان میں موجود علمی کتابوں کے ترجمے کا آغاز ہوا۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے مسلمانوں نے ان علوم کی کتب کے ترجمے کیے جن کی ان کو ضرورت وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی تھی۔ان ہی علوم میں میڈیکل سائنس/علم طب اور فارمیسی کی کتب کے ترجمے کیے گئے۔
پھر اسی طرح علم فلک،علم میکانیکی، آرکیٹکچر، دیکھنے جانے والی اشیاء کا علم اور ہاتھوں سے بننے والی اشیاء جوروزمرہ کے استعمال میں آتی ہیں ان سے متعلق رہنمائی فراہم کرنے والی کتب کے ترجمے بھی کیے گئے۔اس زمانے میں ترجمہ کا کام کرنے والے بہت سے افراد موجود تھے کیوں کہ ان کو مسلمان بادشاہوں کی جانب سے بہت بڑی اجرت جاری کی جاتی تھی۔عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو کتاب کے وزن کے برابر سونا دیا کرتاتھا۔اس سبب سے بہت سے غیر مسلم اسلام میں بھی داخل ہوئے تاکہ وہ اس نئے دین کی خدمت کرسکیں اور مختلف علوم کی کتب ترجمہ کریں اور مسلمانوں کو جن علوم سے وہ متعارف ہیں ان کی تعلیم دیں۔
یہ امر اسلامی ثقافت کا روشن باب ہے ۔کیوں کہ باقی جتنی بھی ثقافتیں وجود میں آئی وہ پرانی ثقافتوں کا نہ تو احترام کرتی تھیں اور نہ ہی ان سے کچھ استفادہ کرتی تھیں۔بلکہ ان کو صف ہستی سے مٹانے کے لیے ان کی کتب کو جلادیتے تھے اور علماء کو قتل کرکے ان کی پیش قدمیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کو ختم کرنے کے جتن کرتے تھے جیسے تاتار نے بغداد میں اور عیسائیوں نے غرناطہ وقرطبہ میں مسلمانوں کی ثقافت کے نام و نشان مٹادینے کی کوشش کی ۔جب کہ مسلمانوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیابلکہ قدیم تہذیبوں کے تجربات سے استفادہ کیا اور ان کی خدمات کا بھی اعتراف کیا اور ساتھ میں ان کی لغزشوں کو درست بھی کیا۔اسی طرح یونانی علم جو کے ناپید ہوچکے تھے مغرب کے مظالم کے باعث یا پھر جو کچھ بچے کچے تھا بھی تو وہ ظلمتوں سے معمور کتب خانوں کی نذر ہوچکے تھے ان یونانی علوم کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہے۔
کتب کے ترجموں کی تکمیل کے بعد مسلمانوں نے ان علوم کو پڑھنا شروع کیا ان میں جو کفر و شرک ۔جادو اور عقائد مسلم کو بگاڑنے والے نظریات تھے ان کا تصفیہ کیا اور ان علوم کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی اور ان علوم میں نئے امور کا اضافہ بھی کیا جس سے مسلمان کی زندگی کو نفع پہنچ سکے۔تعلیم و تعلم کے بعد مسلمانوں نے ان علوم پر مکالمے کا آغاز کیا جس کی بدولت مسلمانوں نے تحقیق و جستجو اور مکالمے و مباحثے سے تجربات کی دنیا میں قدم رکھا۔اور یہ بتایاکہ حق اور سچ میں کیا فرق ہے ،صحیح اور غلط کواپنے تجربات کی روسے ثابت کیا ۔بہت سے علوم کے ماہرین پیدا ہوئے جن میں سے بعض کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے:
علم فلکیات(Astronomy):یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ ستاروں اور سیاروں کی معلومات حاصل کرتے ہیں ان کی حرکتوں اور مسافتوں کے بارے میں جان کاری ملتی ہے۔اس علم میں بہت سے مسلم علماء نے خدمات پیش کیں جن میں ابوعبداللہ محمد بن جابر بن سنان البتانی(٣١٧ھ)اور ابواسحاق ابراہیم بن یحیٰ النقاش الزرقالی شامل ہیں۔ابن الزرقالی نے دوربین ایجاد کی جس کے ذریعہ ہواکی سمت اور اس کی شدت اور دن و رات کا تعین کا اندازہ لگایا جاسکے۔ جس سے علماء یورپ متاثر ہوئے اور ان کی کتب سے یورپی عالم کو برنیکس نے استفادہ کیا۔ البتانی نے آلات فلکیات ایجاد کیں اور ان کے استعمال کے طریقے کو بیان کیا۔ اسی طرح انہوں نے ستاروں سے متعلق کتاب لکھی جس میں ان کی حرکت اور ان کی تعداد کو بیان کیا،یہ کتاب یورپی اداروں میںعلمی عروج کے زمانے تک پڑھائی جاتی رہی ۔
Engineering
علم ریاضی(Mathematics):اس علم میں حساب و کتاب ،جبراء اور انجینئرنگ وغیرہ کے بارے میں مدد لی جاتی ہے۔محمد بن موسی الخوارزمی نے علم ریاضی میں بے پناہ خدمات انجام دیں جن میں طاق و جفت کو بیان کرنا اور واحد و عشرہ اور سوکے خانے وجگہوں کے تعین کو بیان کرنا شامل ہیں۔اور اسی طرح دائرے کے درمیان تناسب کا تعین کا طریقہ بھی بتایا جس سے مغرب ناآشناتھے۔انہوں نے علم جبرا ء پر کتاب بھی لکھی (الجبر والمقابلہ)اسی طرح خوارزمی نے اساسیات و علامات ریاضی کو بھی بیان کیا۔مسلمانوں کے زمانے میں علم ریاضی عروج کی بلندیوں پر پہنچا۔ خوارزمی کو دیکارت جوکہ مغربی ریاضی دان ہے اس پر سبقت کاملہ حاصل ہے۔ اور مسلمانوں کو یہ انعام جاتاہے کہ انہوں نے صفر کے ہندسہ کو متعارف کروایا جس سے پہلے کوئی واقف نہ تھا۔علم ریاضی میں ابوالوفاء البوزجانی نے بھی خدمات انجام دیں۔اسی طرح انجینئرنگ کے شعبہ میں حسن بن الھیثم و ابوجعفر الخازن اور تیسری صدی ہجری موسی کے تین بیٹوں نے بھی حصہ شامل کیاان کے نام شاکر،احمد اور حسن ہیں۔ انہوں نے انجینئرنگ ،فلکیات اور میکانیکی پر کتب لکھیں۔
علم الجغرافی(Geography):مسلم علماء نے علم جغرافی کا بھی اہتمام کیا جس کے لیے انہوں نے سمندری و صحرائی علاقوں میں سفر کیے ،راستوں ،مسافتوں اور مختلف شہروں کے بارے میں باریک بینی کے ساتھ معلومات جمع کیں۔اسی سبب سے مختلف شہروں اور علاقوں کے نقشہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ابو اسحاق الاصطخری، البلخی، المسعودی، الخوارزمی، یعقوبی اور یاقوت الحموی وغیرہ مشہور علماء ہیں جنہوں نے علم جغرافی پر کام کیا۔ الاصطخری جو چوتھی ہجری میں گذرے ہیں پہلی مرتبہ دنیا کا نقشہ بنایا اور اسی نقشہ سے بعد کے نقشہ نویسوں نے مدد لی جن میں بادشاہ صقلیہ کے مانگنے پر الادریسی نے الاصطخری کے نقشہ سے مدد لیتے ہوئے دنیا کا نقشہ پیش کیا اور اس میں اس نے زمین کے طول وعرض کو بھی بیان کیا۔مسعودی ایک مشہور مئورخ اور معرف سیاح ہے جس کو مستشرقین نے ھیرودت العرب،بطلیموس المسلمین(یعنی ماہر فلکیات و جغرافیہ اور علم ریاضی کا ماہر) کہا ہے۔یعقوبی نے کتاب فتوح البلدان لکھی جس میں بہت سے فارس کے متعدد شہروں کے جغرافیہ پر تفصیل سے بات کی۔
علم الفیزیائ(Physics):مسلمانوں نے سمند ر سے متعلق معلومات پیش کیں اس میں سمندر کے عروج و ہبوط اور پانی کی موجوں پر بات کی اسی طرح مسلمانوں نے ہواکے بارے میں بھی اپنے تجربات کو پیش کیا جس میں ہوا کی شدت ،طوفانی کیفیت اور موسم کے تغیر و تبدل میں ہوا کے کردار پر بات کی۔بارش و بادل بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرچ پر بھی بات کی۔ان علماء میں حسن بن الھیثم ،البیرونی شامل ہیں ۔مسلمانوں نے سب سے پہلے گھڑی کی سوئیاں ایجاد کی جو کہ ھارون الرشید کے زمانے جست سے تیار ہوئیں ۔زمین کی گردش پر بھی مسلمانوں نے بات کی اور معدنیات سونا،چاندی،لوہا،اور یاقوت کے وزن اور ان کی خصوصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بھی محنت صرف کیں۔یہ چند چیدہ مثالیں علم فیزیاء کے بارے میں پیش کیں کھلی بات ہے کہ اگر مسلمان اس میدان میں اتنا کام نہ کرجاتے تو آج مغرب علم فیزیاء میں اس مقام پر نہ ہوتا جہاں آج ہے۔
علم نباتات و حیوان(Animals, plants):مسلمان پودوں اور حیوانات کے علم پر بھی کام کیا جیسے انہوں نے زراعت کے علم کا اہتمام کیا ۔مغرب اس بات کا اعتراف کرتاہے کہ مسلمانوں نے پودوں و زراعت کے علم میں بے پناہ خدمت کی ہے۔جس میں مصر و اندلس اور صقلیہ سے زراعت کی بہت سے اقسام منتقل ہوئیں۔مغرب نے کپاس ،گنا،لیمو اورتربوز کی زراعت سے فائدہ اٹھایا۔زراعت کے شعبہ میں اہم کتاب (الفلاحة الاندلسیة)ابی زکریا محمد بن العوام الاشبیلی کی شامل ہے۔اس کتاب میں مٹی کی اقسام و خاصیت پر بات کی اور اس میں کس چیز کے قبول کرنے کی صلاحیت ہے اور کس چیز کے قبول کرنے کی نہیںاس کو بھی بیان کیا۔اسی طرح مسلم علماء نے جانوروں کے علم پر بھی کام کیا جن میں کتابہ الحیوان لابن جاحظ،حیاة الحیوان الکبری الدمیری اور علاج الحیوانات للرّماح شامل ہیں۔
علم کیمیائ(Chemistry):مسلمان کمیسٹری سے بہت جلدی متعارف ہوگئے تھے اور انہوں نے اس میں اپنی محنتیں صرف کی سب سے پہلے خالد بن یزید بن معاویہ (٨٥ھ)نے اس علم میں کام کیا۔جابر بن حیان نے اس علم کے بارے میں ابتدائی و مضبوط کام کیا جس میں تجربہ کا طریقہ کار کو بیان کیا۔اس تجربے سے مشاہدہ کرنے اور نتیجہ حاصل کرنے میں آسانی ہوتی۔ اسی طرح ابن حیان نے عملی کمیسٹری میں زیادہ کام کیا اور اس کی صفات کو بیان بھی کیا۔اسی طرح دھواں، عمل کشید،صفائی اور تحلیل کو بیان کیا ۔اس میدان میں سوسے زائد کتابیں مسلمانوں نے ضبط تحریر کیا۔اسی طرح خوصیات میزان کو بھی بیان کیا گیا۔محمد بن زکریا الرازی ،یعقوب بن اسحاق الکندی نے بھی متعدد مقالات لکھے۔ مسلمانوں نے کمیسٹری میں بہت زیادہ کام کیا جس سے مرکبات بوٹاشیم و سوڈیم کو ایجاد کرناشامل ہے۔اسی طرح کاربن ڈائی اکسائڈ کو شیشہ کی تیاری کے لیے استعمال کیا۔صابن و خوشبو کے لیے اشیاء ایجاد کیں۔
علم الطب(Medical science): علم الطب میں بھی مسلمانوں نے کام کیا اسلامی خلافت کے زمانے میں اطباء کی تعداد کافی زیادہ تھی ۔ جن میں مشہور طبیب رازی ہیں جنہوں نے بڑی آنت کے درد ،گردے کے درد کو بیان کیا اور اسی طرح چیچک اور خسرہ (Smallpox and measles)کے مرض کے مابین فرق کو بھی واضح کیا۔اور بعض بیماریوں کے اسباب و عوامل بھی بتائے۔ابن نفیس نے خون کی گردش (Micro-circulation)کو سب سے پہلے بیان کیا۔لسان الدین ابن الخطیب نے اندلس میں طاعون کے دوران بیماری سے بچنے کے لیے عوام کی رہنمائی کی اور ان کو طاعون سے نجات کے لیے ادویات تجویز کیں۔مسلمان کسی بھی ڈاکٹر کو بریکٹس کی اجازت نہیں دیتے تھے جب تک کے وہ اس وقت کی مشہور علم الطب کی کتب کے امتحان کے مراحل سے نہ گذرجاتا۔مسلمانوں نے علم الطب کے مجال میں تمام جہتوں سے کام کیا جس میں داخلی امراض،معدہ کے امراض ،آنتنیوں کے کیڑے اور بواسیر کو بھی بیان کیا۔سرجری سے متعلق (رازی نے کتاب الحاوی)لکھی جس میں سرجری کے آلات اور طریقہ کار پر بات کی جن میں پیٹ کی سرجری،کان میں موجود پھوڑوں کی سرجری، جنسی اعضاء کی سرجری کو ترجیحی طور پر بیان کیا۔
سرجری کے علم میں اندلس کے عالم ابی القاسم الزھراوی کی کتب سے مغرب نے پانچ صدیوں تک استفادہ کیا ۔ان کی کتب کو لاتینی زبان میں ترجمہ بھی کروایاگیا۔زھراوی نے ران و چھاتی کے ٹیومر کو بیان کیا،اسی طرح مختلف جراثیم کے علاج اور مثانے کے پتھروں اور اس کے توڑنے کے لیے دواتجویز کیں۔اسی طرح سرجری کے سلسلہ میں دوسو سے زیادہ آلات سرجری اور ان کے طریقہ استعمال کو بھی ذکر کیا۔بعدمیں آنے والے اطباء نے زھراوی سے رہنمائی حاصل کی۔آنکھوں کی بیماریوں کے بارے میں بھی مسلمانوں نے بہت کام کیا اور آنکھوں کے امراض کے علاج بھی تجویز کیے۔دانتوں کے درد اور دانتوں کی بیماریوں کو بیان کیا کمزور دانتوں کو نکالنے اور اس کی جگہ گائے کی ہڈی سے تیار شدہ دانت سونے و چاندی کے ذریعہ جوڑ کر لگانے کا کام بھی مسلمانوں نے کیا۔عورتوں اور بچوں کے امراض سے متعلق بھی تخصص کااہتمام کیا۔بچوں کی بیماریوں مثلاً غیر ارادی طور پر بستر میں قضائے حاجت کردینا،بچوں کو فالج کا ہونا،قے اورکھانسی جسے امراض کو بیان کیا اور ان کے علاج تجویز کیے۔اس سلسلہ میں (رسالة فی اوجاع الاطفال لابی علی بن احمد بن مندویہ الاصفھانی ٤١٠ھ)تحریر کی گئی۔
علم الصیدلیة(Pharmacy):فارمیسی کے شعبہ میںبھی مسلمانوں نے کام کیا اس مجال میںکئی انکشافات بھی کیے ۔ ادویات میں بہت سی منشیات و اشیاء کا استعمال کیا جیسے ہلدی،مہندی،کافور اور جیرہ ۔ادویات کی تیاری میں نباتات ،معدنیات اور حیوانات کے مختلف مواد کو استعمال میں لایاگیا ۔رازی پہلے عالم ہیں جنہوں نے کمیسٹری کو علم الطب کی خدمت کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔کڑوی ادویات میں چینی اور سیب پھلوں کے جوس کو شامل کیا تاکہ مریض بآسانی اس دوا کو استعمال کرے۔
المستشفیات(Hospitals):مسلمانوں نے سب سے پہلے ہسپتالوں کو متعارف کروایا ۔سب سے پہلا ہسپتال اموی خلیفہ ولید ابن عبدالملک (٨٨ھ) میں دمشق کے قریب قائم کیا گیا ۔جس میں جذام(کوڑھ) کا علاج کیا جاتاتھا۔ان ہسپتالوں میں مریضوں کی سہولت کا مکمل خیال رکھاجاتاتھا ہر قسم کی ادویات دستیاب ہوتی تھیں۔مشہور ہسپتالوں میں مصر کا مستشفیٰ احمد بن طولون،دمشق کا مستشفیٰ نورالدین محمود زنگی اور مصر کا مستشفیٰ صلاح الدین ایوبی شامل ہیں۔
مندرجہ بالاتحریر پڑھنے سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں نے کس قدر جدید اور دنیوی و سائنسی علوم میں اپنی خدمات پیش کیں ۔مگرافسوس ایک طرف مغرب نے یہ سب علوم مسلمانوں سے حاصل کرنے کے بعدجب پایہ عروج پر پہنچے تو مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے تمام ایجاداد ت مسلم کو یکسر اپنی طرف منسوب کرلیا۔اور مسلمانوں کی جانب برائیوں اور خامیوں کو منسوب کرکے ان کو علم دشمن ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔دوسری جانب مسلم علماء نے مغرب کے طعن و تشنیع سے مغلوب ہوکر بالکل سائنسی علوم سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس سے انہوں نے اپنے اسلاف کے منہج کو چھوڑ دیا۔یہ مسلم بات ہے کہ اسلام میں علم کی کوئی ثنویت نہیں ،اسلام میں علم شرعی و علم دنیوی کی کوئی تقسیم نہیں ہے ۔قرآن مجید و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم دنیوی کے تذکرہ سے معمور ہے۔جس میں سورج،چاند،ستارے،ریاضی ،اعداد اور وراثت نمایاں طور پر بیان کیے گئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانان مسلم علم جدید سے مسلح ہوں اس سلسلہ میں قرآن و سنت کا وسعت و گہرائی کا مطالعہ بھی کریں اور اس طرح مسلمانوں کو مغرب کے رحم وکرم اور ان کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنے کی بجائے مغرب کو مرعوب و مرغوب اور متاثر کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمانوں کو ہی اس دنیا کی حقیقی قیادت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
ATIQ UR REHMAN BALOCHI
تحریر: عتیق الرحمن 03135265617 atiqurrehman001@gmail.com