تحریر : میاں نصیر احمد پاکستان جب وجود میں آیا تو پاکستان معاشی لحاظ سے بہت کمزور تھا ساری معیشت کا انحصار زراعت پر تھا اور زراعت بھی جدید طریقہ سے نہیں کی جاتی تھی جسکی وجہ سے پیداوار تنی زیادہ نہیں تھی کہ اسے غیر ملکی منڈیوں میں بیچ کر زرمبادلہ کمایا جا سکے اور اس وقت ایک امریکی ڈالر تین پا کستانی روپے کے برابر تھاپھر بھی پاکستان کے لوگوں کو جو روکھی سوکھی ملتی تھی اس پر صبر وشکر کرتے تھے ان کی خواہشات اتنی زیادہ نہیں تھی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پاکستان کی معیشت ترقی کرتی گئی اور پاکستان کے لوگ کا رجحان صنعتوں کی طرف بڑھتا گیا جس سے پیداور میں اضافہ ہوتا گیا اور پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کمانے لگا
اس کے ساتھ ساتھ عوام کی خواہشوں کا دائرہ بڑھتا گیا اور وہ دوسرے ملکوں سے چیزیں منگوانے لگ گئے جس سے ادائیگیاں وصولیوں سے بڑھتی گئی اور پاکستانی روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتی گئی لیکن پھر بھی غیر ملکی سرمایا کاری سے ان ادائیگیوں کے تناسب کو کم کر نے میں بہت مد د ملی کیونکہ ان کی نظر میں پاکستان جیسا ملک سرمایاکاری کے لیے بہت اہم تھا پر پاکستان کی سیاسی ہل چل نے غیر ملکی سرمایا کاروں کو بہت مایوس کیا اور انہوں نے اپنی سرمایا کاری پاکستان کی بجائے دوسرے ملکوں میں کرنا شروع کر دی جب ایک دم سے غیر ملکی سرمایا پاکستان کی معیشت سے نکلا تو پاکستانی روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید کم ہوتی گئی
Industries
حکومت کی ناکام پالیسوں اور غلط فیصلوں نے ملک میں سکیورٹی خدشات پیدا کر دیے اور انرجی کی بھی قلت پڑ گئی جس سے صنعتوں کا پیہ جام ہو گیا ملکی پیداوار کم سے کم ہوتی گئی اور پاکستان کے لوگوں نے چیزیں دوسرے ممالک سے منگوانا شروع کر دی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آگئی اور اس کمی کو پورا کر نے کے لیے غیر ملکی قرضے لیے جانے لگے پاکستان نے ترقی تو کی بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے موٹر وے بن گئی بڑے بڑے گھر بن گئے لیکن جب قرضوں کی ادائیگی کا وقت آیا تو مزید قرضے لینے پڑے جس سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتا گیا ملک میں گرم بازاری کا دور شروع ہوگیا غریب غریب تر ہوتا گیا
امیر امیر تر ہوتا گیا جس سے ملک میں بے روز گاری ہو گئی آج ہم بات کرنے ہیں پاکستان نے بہت ترقی کی ہے پر حقیقت تو یہ ہے کہ آج ایک ڈالر ا00 1پاکستانی روپے کے برابر ہوگیا جو کے کبھی تین پاکستانی روپے کے برابر تھا ہماری عوام کو مصنوعی ترقی تو دیکھا دی جا تی ہے پر حقیقت اس کے بر عکس ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت مستقل بنیادوں پر پاکستان کی ترقی کے لیے فیصلے کرے جس سے پاکستان کے ہر شہری کو یکساں فائدہ حاصل ہو۔