اک دوست تھا بنایا دشمنوں جیسا کیوں پانی پہ گھر بنایا تنکوں جیسا جب بھی قدم بڑھے زخموں سے اٹ گئے کیوں راستہ بنایا، کانٹوں جیسا تھی مجھ کو بھی خبر، بڑی دور ہے نگر کیوں حوصلہ بنایا، چٹانوں جیسا روشنی کی آس میں چلتی رہی حیات کیوں شھر تھا بسایا، جنگلوں جیسا اپنے رہے ہمیشہ غیروں کے بھیس میں کیو ں غیر کو بنایا اپنوں جیسا اُ س سے توخیر مجھ کو ملنا نہیں تھا کچھ کیو ں دامن تھا پھیلا یا گدائوں جیسا