ایمسٹرڈیم (جیوڈیسک) ہزاروں سال پہلے قدیم مصری تہذیب میں فراعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلوپطرہ اور نفراتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا۔
اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتیں۔ سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاوڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔ ایمسٹرڈیم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارہ سارا بیرنارٹ نے لِپ سٹک والے پین کو ’محبت کا قلم‘ قرار دیا تھا۔
تب سے لپ سٹک نے نہ صرف عورت کی ظاہری شکل کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کرادر پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ لپ سٹک کی موجودہ شکل کو پہلی مرتبہ 131 برس پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔ ابتدا میں لِپ سٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطح پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں خاموش فلموں کے دور میں ملی۔
اس سے قطع نظر کہ ملک غریب ہو یا امیر، دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لِپ سٹک کو خاص اہمیت دیتی ہیں اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا میک اپ کا آئٹم ہے۔ 1883ء میں پہلی مرتبہ لِپ سٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا۔
ایمسٹرڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لِپ سٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرینِ کاسمیٹک شامل تھے۔ 1884ء میں پیرس میں پہلی مرتبہ لِپ سٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔
شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف اداکارائیں اور رقاصائیں کرتی تھیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 1912ء میں امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لِپ سٹک کو قبول کر لیا تھا۔
یورپ میں فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لِپ سٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنانا شروع کیا تھا۔ 1921ء ایک ایسا سال تھا جب لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔