تحریر: ایم آر ملک پاک دھرتی کا خواب اس عظیم مفکر نے دیکھا جس کی آنکھیں اس کی تکمیل نہ دیکھ پائیں…! لیکن! یہ قائد کا پاکستان نہیں، اقبال کی دھرتی نہیں۔
جہاں! 4 کروڑ 20 لاکھ افراد شدید غربت کا شکار ہوکر جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہوں۔ 6 کروڑ 70 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی بھی میسرنہ ہو۔ 11کروڑ افراد صحت کی ابتدائی سہولتوں سے محروم ہوں۔ 51 لاکھ بچوں کے پاس جوتے نہ ہوں۔ 31لاکھ بچے چائے خانوں، ورکشاپوں اور کارخانوں میں آنکھیں کھولتے ہوں۔ ڈیڑھ کروڑ نونہالان وطن اپنا بچپن بغیرکھلونوں کے گزارتے ہوں۔ 92 لاکھ افراد بازارسے گولی خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ ہر دو منٹ میں ایک بچہ مرتا ہو۔ 21 لاکھ مزدور حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کرتے ہوں۔ 34 ہزار مجرموں کی گنجائش والی 75 جیلوں میں 82 ہزار افراد پابند سلاسل ہوں۔ 11سو پولیس مقابلوں میں ساڑھے تین ہزار افراد کا ماورائے عدالت قتل ہو۔ پولیس گردی کی انتہا یہ ہو کہ ایک ایس ایچ او قانون کی لاش پر پائوں رکھ کر شریف شہریوں کی سرعام چھترول کرے ایک صوبائی دارالحکومت میں روزانہ چار لاکھ روپے کی شراب پی جاتی ہو اور پولیس 21 کروڑ روپے ماہانہ رشوت وصول کرتی ہو۔
5 ارب روپے ہرسال زراعت پر کاغذی کاروائی کی نظر ہو جاتے ہوں۔ حکمران طبقہ قرضے کی ایک قسط کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ساری شرائط ماننے کے لئے تیار ہو اور بجٹ کے لئے امریکہ کی خوشنودی کا منتظر ہو۔ 30 فیصد آبادی گرمیوں میں آم اور سردیوں میں کینو کے ایک دانہ کو ترستی ہو۔ 6 سیکورٹی ایجنسیاں اور ہزاروں پولیس اہلکار دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے میں ناکام ہوں۔
قابل احتساب اقلیت کے ہاتھوں ناقابل احتساب اکثریت یرغمال ہو۔ ڈگری یافتہ نسل نو کو بے روزگاری کا ناسور، رشوت، سفارش اقرباء پروری، منشیات، ظلم و استحصال کی صورت میں ڈس رہا ہو۔ تعلیم کے نام پر غرض پرستی، قانون کی آڑمیں لاقانونیت، رہنمائی کے نام پر ہوس اقتدار اور دوا کے نام پر زہرقوم کی رگوں میں انڈیلا جا رہا ہو۔ ذہنوں میں تعمیری سوچ بھرنے والے حکیم سعید، صلاح الدین جیسے نباض قوم کے قتل عام کو معمولی واقعہ سے تعبیر کیا جاتا ہو۔
Allama Iqbal
کلاشنکوفوں اور گنوں کے سائے میں جبینیں سجدہ ریز ہوتی ہوں اور مسجدیں مرثیہ خواں ہوں کہ نمازی نہ رہے۔ حکمران غیر ملکی دوروں پر قومی خزانہ کو لیموزین گاڑیوں پر پانی کی طرح بہاتے ہوں اور قوم کے سامنے وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا ڈھونگ رچاتے ہوں۔ اقبال کے نگر میں اندھیروں کے عفریت دھاڑتے ہوں نغموں اور گیتوں کی بستیوں سے چیخوں فریادوں اور نوحوں کی صدائیں سنائی دیتی ہوں۔ مدھ بھری خوشبوئوں کے چمن زاروں کی فضائووں میں بارود کی زہریلی بو سانس لیتی ہو۔ راستے تحفظ اور شہری پناہ طلب کرتے ہوں۔ تاریکیوں کی ڈسی ہوئی شاہراہیں اجالوں کے لئے جھولی پسارے ہوئے ہوں بے خواب اجاڑ آنگن راحتوں کی چاندنی کے لئے ترستے ہوں۔ نام نہاد اشرافیہ کارپٹ، سڑکیں، فلائی اوور اور لگژری کاریں مغرب سے خرید کرتی ہو۔
جمہوریت کے دعویدار، جمہور کو سوکھے پتوں کی طرح پائوں تلے کچل رہے ہوں۔بااثر افراد احتساب فری لانسر ہوں۔ جہالت پسندی اور آزاد خیالی کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی ہو۔ مسائل کے انبار میں سیاسی مصلحتوں کا دخل ہو۔ حکمرانوں اور عوام کے درمیان آقا اور غلام کا فرق بتدریج بڑھتا جا رہا ہو۔قانون کے رکھوالے شریف شہریوں کو بھونکنے پر مجبور کرتے ہوں اور نہ بھونکیں تو زبانیں کاٹ دیں۔ معصوم و نازک پھول اور کلیاں بڑے بڑے پارکوں میں ٹافیاں، غبارے، پوپ کارن، اخباری لفافے، شاپنگ بیگ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اٹھائے روزی کما رہے ہوں۔ ہزاروں آنکھیں بھاری جہیز نہ ملنے پر بوڑھی ہو جاتی ہوں۔ بے روزگاروں کے لئے نوکریاں۔ مظلوموں کے لئے انصاف۔ بھوکوں کیلئے روٹی۔ بیماروں کیلئے دوا۔ نہ ہو۔ پاک دھرتی کے حکمرانو! صرف اتنا بتا دو۔ لاہور میں بادشاہی مسجد کی آغوش میں سوئے ہوئے اقبال نے اسی دھرتی کا خواب دیکھا تھا؟