علامہ اقبال کا دستور العمل

Allama Iqbal

Allama Iqbal

تحریر: روحیل خان
21 اپریل حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مفکر اعظم علامہ محمد اقبال کا یومِ وفات ہے، آیئے اس عظیم ہستی کیلئے دعاء مغفرت کے بعد ان کے پیغام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

فلسفہ حیات کو سمجھنے اور فلاح کامل کا راز جاننے کیلئے ازل سے آج تک کوشِشیں جاری ہیں، کلامِ اقبال کے تفصیلی مطالعے کیلئے ایک زندگی ناکافی ہے۔ اقبالیات پر سیرِ حاصل تحقیق کیلئے مشرق و مغرب کی ساری جامعات کم پڑ جائینگی۔

علامہ اقبال کو سمجھنے کیلئے دل و دماغ کی یکسوئی اور روح تک رسائی ضَروری ہے، اقبال کے پیغام تک پہنچے کیلئے ہم سب کو اپنے اندر چھپے درویش اور صوفی کو تھپتھپا کر جگانا پڑے گا!!

علامہ اقبال کے کلام میں اور انکی فِکرو شعور کے ہر زاویئے میں احکامِ الہی اور فلاح ٔ انسانی بدرجۂ اتم موجود ہے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے دینِ اسلام کے بنیادی عقائد اور تفسیرِ قُرآن کو اپنے کلام کا محور بنایا، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کا کلام، مقام اور پیغام مثلِ آفتاب ابد تک روشن رہے گا۔

علامہ اقبال نے کامیاب زندگی گذارنے اور تا ابد فلاح کے حصول کیلئے ہم سبکو ”دستورُالعمل” یعنی ”Operating Manual” بنا کر دیا ہے جس کے چار سُتون ہیں:

١) خودی، ٢) بلند کردار، ٣) عملِ پیہم، ٤) حُب نبویۖ۔

جی ہاں، یہی وہ چار ”عمادِ اَساسی” ہیں جنکو زندگی میں آراستہ کر کے ہر انسان دین و دنیا کی حقیقی کامیابی بخوبی حاصل کرسکتا ہے، علامہ اقبال نے گہری مشق کے بعد خِرَدکی گُتھیاں سُلجھائیں اور ہمارے لئے سیاہ تر کائنات میں روشنی کے دروازے کھول دیے۔

آئیے علامہ اقبال کے پیش کردہ ” دستورُالعمل” کا درویشانہ جائزہ لیتے ہیں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسطرح ”چار ستُونوں” پر عمل پیرا ہوکر ہم فلاح ٔ ابدی حاصل کرسکتے ہیں۔

پہلا سُتون: خُودی

علامہ اقبال سمجھاتے ہیں کہ اپنے آپکو پہچانو، اپنے مقصدِحیات یعنی ”بندگی” کو ایمانداری سے انجام دو، اپنے فرائض کو جانو، معاملات کو خوش اسلوبی سے مکمل کرو، تم اپنی ذات کی تکمیل کرلو یہ کائنات تمہارے قدموں پر ہوگی، اپنی ذات پر اعتماد اور توحید پر پختہ اعتقاد، اقبال کا پیغامِ خودی حقیقتاً خود آگہی اور وحدانیت کا اقرار ہے۔

خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ

خودی ہی وہ پہلا ستون ہے جو ”خودشناسی” سکھاتا ہے، یہی وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے وحدانِیت کا یقین ہماری رُوح میں جڑیں پکڑتا ہے، ہمارے اندر قدرت نے بیش بہا جواہر پوشیدہ رکھے ہیں، خودی کے ذریعے انکو کام میں لاکر ان پر عمل پیرا ہوکر ہمارے لئے اللہ سُبحانہ وتعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہونا ممکن ہے۔

دوسرا ستون: بلندکِردار

تسخیرِذات اور تسخیرِجہاں کیلئے بُلندکردار ہونا شرط ہے، بلند کردار انسان ہی اعمالِ حُسنہ پر کاربند ہوتے ہیں اور ستاروں پر کُمند ڈالتے ہیں، کردار میں کج روی رکھنے والے اچھے اعمال کے لائق نہیں رہتے۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

خود شناسی وحدانیتِ الہی پر یقین مُحکم کو جنم دیتی ہے، یہی وہ رسی ہے جسکو تھام کر بندہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے، اس طرح آدمی انسان بنتا ہے اور کردار کی بلندیوںں کی جانب رواں دواں ہو جاتا ہے، یہاں اس نقطے کو سمجھنے کیلئے یہ بامعنی فارسی قطعہ کافی ہوگا۔

صورت نہ پر ستم من
بت خانہ شِکستم من
آں سیلِ سبک سیرم
ہر بند گذشتم من

تیسرا ستون: عملِ پیہم

صدیوں کی ملُوکیت کے باعث آج کی امّتِ محمّدیہ میں نبوّت اور خلافتِ راشدہ کے رُوحانی اثرات تیزی سے زائل ہورہے ہیں، آجکل ماڈرن مسلمان اپنے مسائل کے حل کیلئے وسائل و فضائل پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، خُود ساختہ مولویوں کے فتوے اور بدعتوں پر انحصار کر کے ہم اپنی دنیاوی ناکامیوں کی اصل وجوہا ت سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اپنی بداعمالیوں کی ”تطہیر” کرنے کی بجائے آج کا مسلمان قسمت کو برا بھلا کہہ کر اپنی زوال پذیری کو یقینی بنا رہا ہے۔

عملِ پیہم کی جانب رجُوع کرنے کی بجائے قضاوقدر پر تکیہ کئے بیٹھے رہنا علّامہ اقبال کو قطعی قبُول نہیں،انکا پیغام صاف اور سادہ ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی،
یہ خاکی اپنی فِطرت میں نہ نُوری ہے نہ ناری ہے،

علّامہ اقبال کے پیش کردہ” دستُورالعمل” میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہم عملِ پیہم ہی کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی فلاح کے حقدار ہوسکتے ہیں، اور دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے!

چوتھا سُتون: حُب ِ نبَویۖ

خُودآگہی (بذریعۂ وحدانیت)، بلندکردار، اور عملِ پیہم پر حُب نبویۖ کی ” مُہر” کا ثبت ہونا دونوں جہانوں کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس حقیقت کو علّامہ اقبال نے کیا خُوب سمجھایا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔

کی مُحمد سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔

” حُبّ نبویۖ، کلمۂ توحید کی تکمیل ہے”۔۔۔ نہایت سادہ سافلسفہ ہے، اُسوۂ حسنہ اور سیرت نبویۖ پر عمل کر کے ہی اللہ سُبحانہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے، اس طرح آدمی، انسان،،، اور انسان مومن بنتا ہے، یہی وہ راستہ ہے جو مے خانے سے فردوس تک انسان کو لیکر جاتا ہے، اسی ”مقامِ وفا” کو پانے کے بعد ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر لوح ٔکائنات پر قلم درازی کے لائق بنتے ہیں، یہی وہ ”اعجازِ بندگی” ہے جسکو پانے کے بعد ہم اپنی قسمت خود لکھ سکتے ہیں، بناسکتے ہیں، سنوار سکتے ہیں۔

آج کے دورِ ابتلاء میں مسلمانوں کی ذہنی و عملی تیرگی کا علاج ”حُبّ نبویۖ” ہے، یہی وہ چوتھا ستون ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہماری انفرادی کامیابی اور امّتِ محمَّدیہ کی اجتماعی یکجہتی مُمکن ہے۔

Allama Mohammad Iqbal

Allama Mohammad Iqbal

آئیے علّامہ اقبال کے کلام اور پیغام کو دوبار بغور پڑھتے ہیں، انکے بتائے ہوئے” دستُورالعمل” کو سمجھتے ہیں اور انکے سمجھائے ہوئے چار ستونوں پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی اور معاشرے کو سوارتے ہیں، اپنی زبوُں حالی پر ہمیں آگے بڑھکر خود قابو پانا ہوگا!! عالمی حالات اور قدرتی آفاتِ ناگہانی کا اشارہ اور اصرار یہی ہے!!

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تحریر: روحیل خان
چیئرمین، اردو اکیڈمی اِنٹرنیشنل واشنگٹن، ڈی، سی، امریکہ
ای۔میل: rohailkhan00@gmail.com
فیس بک: Rohail00