کراچی (جیوڈیسک) برطانوی جریدہ’’اکنامسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ نواز شریف کمزور ہو رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے قابل نظر نہیں آتے۔ نواز شریف کو 3 مسائل نے کمزور کردیا جن میں اقتصادی اور معاشی مسائل پر ناکامی ،بھارت کے ساتھ تعلقات کی ناہموار ی اور عمران خان کے احتجاجی مظاہرے شامل ہیں۔ پاکستان میں لاقانونیت اور مذہبی تعصب معمول بنتا جا رہا ہے۔ نوازشریف کی بدقسمتی کہ ان کے بھارتی ہم منصب ان سے تعاون نہیں کریں گے۔ بھارت کے قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی نے جج کیا کہ ان کی عوام پاکستان کے خلاف سخت پالیسی چاہتی ہے۔انہوں نے اگست میں امن مذاکرات ختم کر دیے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرحد بھارتی فوج کو فری ہینڈ دے دیا جس کا نتیجہ دہائی کے بدترین تشدد کی صورت میں نکلا۔عمران خان نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر کے نئے انتخابات چاہتے ہیں یا فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت یا وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کے ساتھ پارلیمنٹ ہے اور فوج بھی جمہوریت کو معطل کرنے کیلئے تیارنظر نہیں آتی۔ جس سے عمران خان بپھرے نظر آتے ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ ایسی صورت بھی نہیںکہ عمران کی وسیع پیمانے پر مقبولیت ہے۔پول بتاتے ہیں کہ انہیں 18فی صد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، تاہم قومی سطح پر ان کی اپیل زوال پذیر ہے۔ کئی سال قبل جو نواز شریف کے حامی تھے ان کے سامنے دوسرا انتخاب عمران خان تھالیکن اب ایسی صورت نہیں رہی۔عمران کرشماتی ہیں لیکن سمجھوتوں کے لئے انتہائی کم صلاحیت کے مالک ہیں جو ایک پارلیمانی نظام میں اثر و رسوخ کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے ابتدائی دنوںمیں نواز شریف کسی بھی پالیسی پر فوج سے مشورہ نہیں کیاکرتے تھے مئی میں مودی کی حلف برداری میں جانے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر اصرار کیا۔ تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ ایسی غلبہ کی صورت حال ختم ہو گئی۔ نواز شریف کے کمزور ہونے سے فوج کو فائدہ ہوا۔جریدہ لکھتا ہے کہ کیا نواز شریف فوج کے ساتھ واضح تصادم سے گریز کرسکتے ہیں؟وہ مشرف کے مقدمہ چلائیں گے اور خارجہ اور سلامتی پالیسی کو چھوڑنے پر مزاحمت کریں گے۔
مشرف کے مقدمے کی سماعت اور عمران خان کا احتجاج سے نومبر اہم موڑ ثابت ہوگا، محض نواز شریف کی بقا ایک کامیابی ہو گا۔جریدہ لکھتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستانیوں کودہشت گردی کے دوہولناک واقعات سے گزرنا پڑا،جن میں ایک واہگہ بارڈ پر خود کش دھماکا جس میں 61 جانیں چلی گئیں۔ اگر حملے کا محل وقوع دیکھا جائے تو بھارتیوں پراس حملے کا شک جا سکتا ہے مگر زیادہ تر امکان عسکریت پسندوں کا ہے ، تین حریف گروپوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ بھی کرلیاجو پاکستان کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ کے گڑھ پنجاب کو ہدف بنانا چاہتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد پہلا بڑا دہشت گردی کا واقعہ تھا۔
پنجاب میں ہی ایک اور چھوٹا مگر ہولناک واقعہ کوٹ رادھا کشن کا سامنے آیا جہاں ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کا الزام لگا کر جلا دیا گیا۔ دونوں حملے وزیر اعظم نواز شریف کی مستحکم پاکستان پر حکمرانی کی صلاحیت پر شکوک کا اظہار ہیں۔ انہوں نے مئی 2013 کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ میں 272 نشستوں میں سے 126 جیت کر ایک واضح مینڈیٹ حاصل کیا اور کئی دہائیوں کے سب سے زیادہ طاقتور سویلین لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔اب ان کی طاقت میں کمی ہو گئی ہے حتی کہ قریبی ساتھی بھی تشویش میں ہیں کہ ان کی بڑی کامیابی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رکھنا ہوگا۔
تین مسائل نے نواز شریف کو کمزور کیا جن میں اول اقتصادی اور معاشی مسائل پر ناکامی ہے۔ افراط زر، بجلی کی قلت اور آزاد منڈی میں اصلاحات کی عدم موجودگی سے آمدنی میں اضافے اور پیداواری نمو میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ناقدین نواز شریف کی لیپ ٹاپ اور میٹروبس اسکیم کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ پولیو ماہرین انسداد پولیوکی حکومتی ناقص پالیسیوں کی مذمت کر رہے ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں ہر پانچ میں چار کیسز پاکستان میں سامنے آرہے ہیں۔نواز شریف کے لئے دوسری مشکل بھارت ہے بھارت سے بہتر تعلقات نواز شریف کی ترجیح تھی وہ بھارت کے ساتھ تجارت اور تعاون سے معیشت کو بہتر کرنا چاہتے تھے ۔پول کے مطابق تین چوتھائی نواز شریف کے اس اقدام سے اتفاق کرتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اسٹیبلشمنٹ کے ان دعووں کو کمزور کرتی ہے کہ بھارت سے بقا کو خطرہ ہے۔ طویل عرصے سے عسکری اخراجات ، فارن اور سیکورٹی پالیسیوں پر کنٹرول کے جواز کے طور اس دلیل کاغلط استعمال کیا جاتا ہے ۔تیسرا مسئلہ نواز شریف کو عمران خان کے مہینوں سے جاری احتجاجی مظاہروں سے دھچکا لگنا ہے۔ عمران خان نے اپنے حریف کو کمزور کیا ہے اور خاص طور پر فوج کے ساتھ نمٹنے میں۔