تحریر :منشاء فریدی ایک طویل عرصہ ہوکہ وہ اس سے محبت کی پینگیں بڑھا چکا تھا۔ موبائل فون پر گھنٹوں باتیں کرتے مصروف پائے جاتے تھے۔لیکن اندر کی بے چینی سے صاف نظرآتا تھاکہ اس خالی نشست کو پُر کرنے کی جیسے آرزو ہو۔۔۔جو ایک مدت سے خالی تھی۔دونوں میں ایک موہوم سی خواہش جوان ہو چکی تھی۔جس کا انجام تکمیلِ تمنا تھا۔دریں اثناء دونوں دل جلے”جی”ایک دوسرے سے ملنے کے لئے سینکڑوں میلوں کا سفر طے کرتے۔ ملاقاتوں میں تجدیدِ عہد ہوتے۔تجدیدِ وفا کے وعدے ہوتے۔۔۔۔ہمیشہ ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی جاتیں مگر درمیان میں ظالم سماج کی آوارہ رسمیں سدِ راہ ثابت ہوتی ںجو اعلان محبت کے عمل میں مانع ہیں۔
زمانہ روزِاول و ازل سے سچی محبت کا دشمن ہے۔خالص جذبات کے ساتھ کھوٹ کرتا ہے۔ پاکیزہ احساسات کا احترام نہیں کرتا۔ ” وہ ”دنیا والوں کی نظروں سے چھپتے چھپاتے عہدو پیماں مزید قابو ہوتے رہے۔ وعدوں کی ڈوری اس قدر مضبوط ہوئی کہ ایک پل بھی نہ بچھڑ نے کی ٹھان لی۔۔۔!
محبت کا یہ سلسلہ شادی کے بندھن میں تبدیل ہونے لگا۔۔۔مذہبی عقیدے کے مظابق بظاہر مضبوط ترین مگراصل میں حساس ترین ڈوری”نکاح”میں یہ پریمی جوڑا بندھ گیا۔۔۔جسے مزید مستحکم کرنے کے لئے وقت کی عدالت میں بھی درج کرادیا گیا۔۔تاکہ کید وسماج۔۔۔جو محبتوں کا صریح قاتل ہے ا ثر انداز نہ ہوسکے۔۔۔انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ محبتوں کے رشتے دل میں آنے والی کدورت کے باعث بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔۔۔وہ لمحے کس قدر خوبصورت ہوں گے کہ جب ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی گئی ہوں گی۔۔۔۔باہر کا موسم اندر کے موسم کے باعث انسان کو خوبصورت یا بدصورت نظر آتا ہے۔۔۔اندر کی گرمی یا سردی باہر کے موسم کو گرم اور سرد بنا سکتی ہے۔یہی تو وہ محسوسات ہیں جو مطمین اور غیر مطمین رکھ سکتے ہیں۔
LOVE
ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار اس پریمی جوڑے نے بھی اپنے اندرکی تسلی وتشفی کے لئے موسم کو اپنے اندر کے ساتھ ساتھ باہر بھی پالیا تھا۔۔۔لیکن ۔۔۔کیا خبر تھی کہ رانجھے کی ہیراور پنل کی سسی بھی کبھی دھوکہ کر سکتی ہے۔۔۔کیا کبھی رانجھے اور پنل کے مقدس اذہان میں یہ تصورات ابھرے ہوں گے کہ ہیر اور سسی کی سوچیں بھی ناپاک ہوسکتی ہیں۔۔۔؟اگر ایسا ہوتا تو آج محبت کی سچی کہانیوں کا وجود نہ ہوتا۔نہ ہی رانجھا امر ہوتا اور نہ ہی پنل۔۔۔مگر۔۔۔ بد نظر دنیا والوں نے کب محبت کو برداشت کیا۔۔۔اور کب محبت کرنے والوں کو ہضم کر پائے۔۔۔مگر۔۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔۔۔؟محبت کہ جس کا ارتکاب خود خدا نے کیا ہے۔بھلا جھوٹی رسمیں اوردلوں میں در آنے والی کدورتیں ”محبت”کوفنا کر پائیں گی ؟اس کے مقابل ہر طاقت ہیچ ہے”محبت ” کو جرم قرار دینے والے دراصل انکارِ حق کے مرتکب ہوکر مجرم ٹھرچکے ہیں۔۔۔!
وہ لاہور میں وکالت کرتا تھا ۔۔۔اور اس کی محبوبہ بہالپور میں اسلامیات میں فلسفے کی ڈگری کی تیاری کر رہی تھی۔اسے کیا معلوم تھا کہ ایک پختہ عقل کی لڑکی جوعمر کے اس حصے میںداخل ہوچکی تھی جسے مکمل عورت کا نام دیا جاسکتا ہے۔۔۔وہ اس وقت چوبیس اور تیس سال کے درمیانی عرصے میں تھی۔۔۔اس عمر میں تو انسان نفع اور نقصان کا مکمل طور پر شعور رکھتا ہے۔۔۔جذبات کو بھی اپنے قابومیں رکھتا ہے۔۔۔اس کا کوئی بھی فیصلہ عقل وخردمعیت میں انجام پاتا ہے۔عمر کے اس حصے کے فیصلے کافی سوچ بچارکے بعد ہی طے پاتے ہیں۔۔۔
!نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کے بعدآج جب انہیں کوئی خاص عرصہ نہیں بیتاکہ جب طالب نے اپنی مطلوب ومحبوب لڑکی کو فون کیا تواس کی زندگی کی حاصل اور جاںسے بھی پیاری مطلوبہ نے شاید دل میںاور دل کے نہاںخانے میں کسی اور کو بسا لیا تھا۔۔۔فون پر سرد مہری کے ساتھ گفتگو ہوئی۔۔۔وہ قسمیں وہ تجدیدِ عہدکے دعوے۔۔۔اور وہ زندگی بھرساتھ نبھانے کے وعدے سب کانچ کی طرح ٹوٹ چکے تھے۔ پھر ایک ٹیکسٹ میسج نے عاشق اور محب کے تمام حوصلوں اور امیدوں کوخاک میں ملادیا کہ۔۔۔۔آج کے بعدمیں تمہاری نہیں ہوں۔۔۔!