سپین (جیوڈیسک) شمال مشرقی علاقے کیٹلونیا میں ہونے والے غیر سرکاری انتخابات کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ غیر واجب التعمیل انتخابات اس وقت کرائے گئے جب سپین کی آئینی عدالت نے باضابطہ ریفرینڈم کو مسترد کر دیا تھا۔
سپین کے وزیر انصاف رفائل کیٹلا نے ان انتخابات کو ’بے ثمر اور بے کار‘ کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’حکومت اسے آزادی کے حامیوں کی جانب سے ایک سیاسی پروپیگنڈے کا دن سمجھتی ہے اور اس کا کوئي بھی جمہوری جواز نہیں ہے۔‘
نائب صدر جوانا اورٹیگا نے کہا کہ ان انتخابات میں بیس لاکھ سے زیادہ افراد نے حصہ لیا اور تقریبا تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے جس میں سے 80 فیصد سے زیادہ لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
کیٹلان رہنما آرٹر ماس نے اس انتخاب کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے باضابطہ استصواب رائے کی راہ ہموار ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں سے صلاح و مشورہ‘ ایک تاریخی جیت ہے جس سے مکمل ریفرینڈم کے لیے سٹیج تیار ہوتا ہے۔
کیٹلونیا سے ہیں کہ ماس نے اپنے حامیوں سے کہا: ’ہم نے ریفرینڈم کا حق حاصل کر لیا ہے۔ ایک بار پھر کیٹلونیا والوں نے دکھا دیا ہے کہ وہ اپنی حکومت چاہتے ہیں۔‘ اس غیر سرکاری استصواب رائے میں ووٹروں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کیٹلن ریاست چاہتے ہیں اور کیا وہ ایک آزاد ریاست ہو۔
واضح رہے کہ اس انتخاب کے نتائج پر عمل ضروری نہیں۔ اظہار رائے کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 80 فی صد کیٹلن باشندے سرکاری طور پر ریفرینڈم کرائے جانے کے حق میں ہیں جبکہ 50 فیصد مکمل آزادی کے حق میں ہے۔اس غیر سرکاری انتخابات کے انعقاد کے لیے 40 ہزار رضاکاروں نے تعاون کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کیٹالونیا میں قوم پرستی کے جذبے کو معاشی اور تہذیبی شکایات کے حوالے سے ہوا ملتی ہے۔ 75 لاکھ افراد پر مشتمل یہ امیر علاقہ سپین کی معیشت میں جتنا تعاون کرتا ہے اس سے کم اسے بدلے میں ملتا ہے۔ سپین کی ’لبریس اے ایگولیس‘ یعنی آزادی اور مساوات کی علمبردار تنظیم ان انتخابات کی مخالف ہے اور اس نے بارسلونا میں اس کے خلاف مظاہرے بھی کیے ہیں۔