کراچی (جیوڈیسک) ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے 6 ہزار 864 روپے فی من کے حساب سے روئی کی 10 لاکھ گانٹھوں کی خریداری کے اعلان کے باوجود گزشتہ ہفتے مقامی کاٹن مارکیٹس میں روئی کی تجارتی سرگرمیاں مندی کا شکار رہیں تاہم نیویارک کاٹن ایکس چینج میں روئی کی قیمت میں استحکام رہا۔
چیئر مین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ٹی سی پی کی جانب سے جاری ہونے والی نئی پالیسی کے مطابق ٹی سی پی اب کاٹن جنرز سے 500 کے بجائے 600 بیلز کا معاہدہ 6 ہزار 864 روپے فی من کے حساب سے کرے گی۔
کوئی بھی کاٹن جنرز 600 بیلز کی ترسیل مکمل ہونے کے بعد مزید 600 بیلز ٹی سی پی کو فروخت کر سکے گا اور کسی بھی کاٹن جنر کے لئے ٹی سی پی کو زیادہ سے زیادہ روئی فروخت کرنے کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی جس سے خدشہ ہے کہ حکومتی حلقوں میں اثرورسوخ رکھنے والے کاٹن جنرز ٹی سی پی کو عام کاٹن جنرز کے مقابلے میں زیادہ روئی فروخت کرنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ چین نے اپنے روئی کے کاشتکاروں کی فی ایکڑ آمدنی زیادہ سے زیادہ حد تک بڑھانے کے لیے اپنے کپاس پیدا کرنیوالے سب سے بڑے صوبے زین جی آنگ کے علاوہ دیگر صوبوں کے کاشتکاروں کو بھی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ چائنہ کاٹن ایسوسی ایشن کی جانب سے کیے گئے اعلان کے مطابق چینی حکومت اب اپنے صوبے زین جی آنگ کے علاوہ دیگر کاشتکاروں کو 2ہزار یو آن (330 ڈالر) فی ٹن کے حساب سے سبسڈی کی ادائیگی کرے گی جبکہ صوبہ زین جی آنگ کے کاشتکاروں کو کپاس کی امدادی قیمت 19ہزار 800 یو آن سے کم پر فروخت ہونیوالی روئی کا مکمل ڈیفرنس ادا کیا جائے گاجس سے توقع ہے کہ چین میں کپاس کی کاشت میں خاطرخواہ اضافے کا رجحان دوبارہ سامنے آئے گا۔
انہوں نے بتایا کہ چین کے ایک بڑے کاروباری گروپ شین ڈونگ روئی ٹیکسٹائل گروپ کی جانب سے فیصل آباد پاکستان میں قائم ہونے والی 6لاکھ اسپنڈلز پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل ملز کے قیام کے بارے میں اب تمام افواہیں دم توڑ گئیں ہیں اور گزشتہ ہفتے کے دوران انٹر نیشنل کمرشل بینک آف چائنہ کے ایک وفد نے فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ کا دورہ کیا اور 2بلین ڈالر کی لاگت سے قائم ہونیوالی ٹیکسٹائل مل کی پہلی قسط 200ملین ڈالر (10فیصد) فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ کو ادا کر دی جبکہ 40 فیصد پر مشتمل دوسری اور 50 فیصد پر مشتمل تیسری قسط دو سال کے دوران ادا کی جائیگی اور توقع ہے کہ 2017 کے اوائل میں یہ ٹیکسٹائل مل مکمل طور پر آپریشنل ہو جائیگی جس کے بعد پاکستان میں کپاس کی کھپت میں بھی غیر معمولی اضافہ سامنے آنے سے کپاس کی قیمتوں میں بھی تیزی کا رجحان آئے گا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.80سینٹ فی پائونڈ کمی کے بعد 69.20 سینٹ ،ڈسمبر ڈلیوری روئی کے سودے 0.49 سینٹ فی پائونڈ کمی کے بعد 63.96 سینٹ تک گر گئے۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 150 روپے فی من مندی کے بعد5 ہزار روپے فی من تک گر گئے جبکہ بھارت اور چین میں بھی روئی کی قیمتیں معمولی مندی کے بعد بالترتیب 32 ہزار 874 روپے فی کینڈی اور 14 ہزار 50 یو آن فی ٹن تک گر گئیںجبکہ پاکستان میں روئی کی قیمتیں پنجاب میں 5 ہزار 200 اور سندھ میں 5 ہزار 100 روپے فی من تک گر گئیں۔
احسان الحق نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق افغانستان سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر روئی کی اسمگلنگ شروع ہو گئی ہے اور بعض ٹیکسٹائل ملز افغانستان سے بڑے پیمانے پر روئی کی خریداری کر رہی ہیں۔ افغان روئی کے ریشے کی لمبائی اور مضبوطی پاکستانی روئی کے مقابلے میں کافی بہتر ہے لیکن اس میں آلائشوں کی مقدار کافی زیادہ ہے۔15-2014 کے دوران چین میں روئی کی درآمدات پچھلے 10سال کی کم ترین سطح تک گرنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق چین 15-2014 کے دوران صرف 1.3 ملین ٹن روئی درآمد کرے گا۔
جبکہ معلوم ہوا ہے کہ 1991 کے بعد امریکا میں کاٹن ملبوسات کے مقابلے میں پولیسٹر اور ویسکوس سے بنے ہوئے ملبوسات کی درآمد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2014 کے دوران چین میں پولیسٹر، ویسکوس ملبوستان کی درآمد 9.87 بلین اسکوائر میٹر جبکہ کاٹن ملبوسات کی درآمد 9.16 بلین سکوائر میٹر رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت نے پاکستان کو کاٹن یارن کی برآمدات بڑھانے کے لئے مزید مراعات کا اعلان کیا ہے جس کے باعث پاکستان میں انڈین کاٹن یارن کی درآمدات میں بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ درآمدات مزید کچھ عرصے تک جاری رہی تو اس سے پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی مندی سامنے آ نے کے ساتھ ساتھ پاکستانی کاٹن ایکسپورٹس میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے اس لیے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد پر عائد ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کا اعلان کرے تاکہ پاکستانی کاٹن انڈسٹری کو بچایا جا سکے۔