نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارتی ریاست اترپردیش کے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد تنازعے کے تعلق سے ایک سالگرہ نو نومبر بھی ہے۔ اس سال نو نومبر کو ایودھیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کے تعلق سے رام مندر کے سنگ بنیاد کو 25 سال ہوگئے۔
ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کے رہنما اشوک سنگھل نے اس وقت کہا تھا کہیہ محض ایک مندر کا نہیں، ہندو قوم کا سنگ بنیاد ہے۔ 1989 کے اکتوبر کے اواخر میں ہی بھاگلپور میں ہندوستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ خوفناک فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک ہوئے جس پر اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے علاقے میں پہنچ کر جب لاپرواہی برتنے اور فسادات کو جاری رکھنے کے الزام میں وہاں کے پولیس ڈی جی کو معطل کیا تو خود پولیس نے بغاوت کر دی اور ان کا گھیراو کر لیا۔
یہ واقعہ اس وقت کے ہندوستان میں فرقہ وارانہ نفسیات کے جارحانہ پہلو کا غماز ہے اور اس میں ہر سطح پر انتظامیہ کی شرکت کے ثبوت بھی ہیں۔ بھاگلپور کے فرقہ وارانہ فسادات میں آر ایس ایس کی شرکت کے واضح شواہد ملتے ہیں۔
یہ بات ریاستی حکومت کی جانب سے فسادات کی جانچ کرنے والی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق1989 ایودھیا کی بابری مسجد کو رام جنم بھومی مندر کی شکل دینے کے چالیس سال مکمل ہونے کا وقت بھی تھا۔ 1949 کے نومبر میں بابری مسجد کے اندر رام اور دیگر دیوتاو¿ں کی مورتیاں چوری سے رکھ دی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے اس مسجد میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی لگ گئی۔یہ بات کرشناجھا اور دھیریندر جھا کی تحقیقی کتاب ”دی ڈارک نائٹ“ میں اس سازش کی پوری کہانی میں بیان کی گئی۔
یہ بھی کہ کس طرح جواہر لال نہرو کے باربار خبردار کرنے اور تشویش ظاہر کرنے کے بعد بھی کانگریس پارٹی کے رہنماوں نے، جن میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ گووند ولبھ پنت شامل تھے، اس معاملے کو ’ہندو نظریے‘ سے ہی دیکھا۔ اس معاملے میں ہندو فریق کے ساتھ مل کر انتظامیہ نے شریک سازشی کا کردار ادا کیا۔ اس کردار کو نہیں بھولا جاسکتا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی محض سٹائل ہی میں نہیں، بلکہ فکر کے معاملے میں بھی اپنے والد سے مختلف تھیں۔
نہرو ہندووں کا ساتھ دینے کے بجائے مسلسل چیلنج کرتے رہتے تھے۔ انہیں اس میں کوئی شک نہ تھا کہ ہندوستان کو اصل خطرہ اکثریت کے مذہب کی قوم پرستی سے ہے لیکن اندرا نے بنگلہ دیش کی جنگ شروع کر کے ایک نرم ہندو قوم پرستی کو غذا پہنچانا شروع کی۔