تحریر: سید انور محمود پندرہ مئی کو اخباروں میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران ملک میں بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ سال سے تقریباً ڈھائی گنا زائد ہے۔ تین سال بعد پہلی بار پاکستان میں 2 ارب ڈالر کا بیرونی سرمایہ آیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال جولائی سے اپریل کے دوران 2 ارب 97 کروڑ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جو گزشتہ سال سے 133 فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2011 کے بعد پہلی بار ملک میں 2 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی سرمایہ آیا ہے۔
میں حیران اور پریشان ہوا کہ توانائی کے بحران کے علاوہ جس ملک میں باون ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردی کے زریعے مار دیے گئے ہوں وہاں کون سرمایہ کاری کرئے گا، ضرور یہ سرمایہ کاری حکومتیں کررہی ہونگی لیکن یہ سوچ جب بدلی جب وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ لازمی بات ہے کہ جو بھی سرمایہ کار آئے گا وہ اپنا سرمایہ ایسے شہر میں لگائے گا
جو پاکستان کی معیشت میں اپنا ایک کردار ادا کرتا ہو، ویسے تو لاہور ، فیصل آباد، حیدرآباد، ملتان اور بھی بہت سے شہر ایسے ہیں جو پاکستانی معیشت کو آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس وقت پورئے پاکستان میں لاقانونیت کا بول بالا ہے اور امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ ایک واقعہ ہونے کے بعد اگلا واقعہ ہونے سے قبل کے وقت تک امن وامان ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی سرمایہ کار سرمایہ لگانے کو تیار ہے۔ چلیں کراچی چلتے ہیں، اٹھارہ ملین سے زیادہ کی آبادی کے اس شہر کو پاکستان کا معاشی حب بھی کہتے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ اس شہر میں لگانے میں زیادہ دلچسپی لے گا مگر اس شہر کراچی کو اب “لاواث کراچی” کہتے ہیں۔
میں نے کراچی کے ایک بازار کی فٹ پاتھ پر کھڑئے ہوئے ایک شخص سے جب کراچی کے بارئے میں پوچھا تو اُس نے کہا کہ یہ شہر جو کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیت اور لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔کسی زمانے کے اس پرسکون اور غریب پرور شہر کا اب یہ حال ہے کہ میں آج گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کوئی مجھے لوٹ نہ لے، کوئی ٹارگیٹ کلر مجھے اپنا نشانہ نہ بنالے، کسی بازار میں کوئی خودکش حملہ آور نہ آجائے، کسی مسجد میں نمازکےلیے جاتاہوں تو بم دھماکے کا خوف رہتا ہے، کسی بس میں سفر کرتا ہوں تو خوف رہتا ہے کہ اس کا گیس کا سلنڈر نہ پھٹ جائے، کسی ایسے علاقے میں نہیں جاتا جہاں دوسری زبان بولنے والے رہتے ہوں، ڈرتا ہوں مجھے میری زبان کی بنیاد پر نہ مار دیں، اور کسی دوسرئے عقیدئے والے کو اپنے عقیدہ کا پتہ نہیں ہونے دیتا کہ کہیں وہ مجھ کو مارکر جنتی نہ ہوجائے۔
ہرطرف موت کا رقص ہے، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غم زدہ ہے، مرنے والے کو نہیں پتہ اسے کیوں مارا گیا، اب تودرندوں سے نہیں انسانوں سے خوف آتا ہے۔ اب تو لگتا ہے کتے بھی آپس میں بات کرتے ہوئے یہ ہی کہتے ہونگے بھاگ ورنہ انسان کی موت مارا جایگا۔ اس شہر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کے مکین راستوں میں لیٹروں اور گھروں میں ڈاکوں سے نہ لٹے ہوں، یا پھر کوئی غیر فطری موت کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ اور اگر خوقسمتی سے ایسا نہ ہوا ہوتو اُنکے عزیزوں اور دوست احباب میں ایسے ضرور موجود ہونگے۔
Graveyard
ابھی میں اُس شخص کی باتوں پر غور ہی کررہا تھا کہ وہ پھر مجھ سےمخاطب ہوا اور کہنے لگاآپ جس کراچی کی بات کررہے ہیں اُس میں آپ جب بھی قبرستان گے ہونگے تو آپکو قبرستان کا ایک بڑا حصہ خالی ملا ہوگا مگر اب میرئے شہر”لاوارث کراچی” میں قبرستان آباد ہوگئے بلکہ کم پڑ گے ہیں، کپڑئے میں لٹھے کا کاروبار سب سے زیادہ ہورہاہے، گورکنوں کے گھر خوشحالی آگئی ہے، مردہ خانے کم پڑ گئے ہیں،گھر ویران اور سستے مگر قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔ ویسے تو پورا شہر ہی ایک آفت زدہ شہر بنا ہوا ہے
جہاں موت کا رقص ہر روز ہورہا ہے۔ ابلیں بھی حیران اور پریشان ہوگا کہ یہ کون ہیں جو میرا کام مجھ سے زیادہ کررہے ہیں۔کراچی کی سڑکوں پر 2012ء میں 2300 اور 2013ء تقریبا 4000 افراد کو ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ قائم علی شاہ کے گذشتہ پانچ سالہ دور میں کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے پانچ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان اس شہر میں عام بات تھی اور اب بھی ہے۔ یہ سب بتاکر وہ شخص تو چلاگیا مگر میرئے ذہن میں یہ سوال چھوڑ گیا کہ پھر سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگاکر کیا کاروبار کرینگے۔ جواب مجھے مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانی “گدھ” میں ملا، آپ بھی پڑھ لیجیے۔
اِس ملک میں سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں ہم بڑے پیمانے پر سرمایہ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں اپنی مصنوعات بھی اِسی ملک میں بیچیں گے ہم نے بھاری مشاہرے پر منیجر رکھ لیے ہیں ٹیکسٹائل کی کئی فیکٹریاں لگارہے ہیں روئی کے مستقبل کے سودے کرلیے ہیں سیکڑوں افراد کو روزگار ملنے والا ہے جی ہاں، ہمیں حالات کا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ مقامی سرمایہ کار دہشت گردی سے ڈر کے بھاگ رہے ہیں لیکن ہم خوف زدہ نہیں ہیں ہم نہیں بھاگیں گے اپنی کمپنی کے نہایت نفیس سوتی کفن اِسی ملک میں بیچیں گے۔