یا نہ ہوا ہو ایک کام ضرور ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج، مارچ، دھرنوں اور جلسوں نے سوئی ہوئی عوام کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ضرور جگا دیا اور ان کو احساس دلا دیا کہ اگر انہوں نے بھی جلسے جلوس نہ کیے تو ان کے ووٹ بینک میں کمی آ جائیگی ۔عمران خان نے دو چاردن کے اعلان پر لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے کر کے دیگر پارٹیوں کے رہنماوں کی نیند اڑا دی انہوں نے بھی جلسے کرنے کر نے شروع کر دیے لیکن وہ ایک ایک ماہ تیاری کر کے عمران و قادری جتنے بڑے جلسے کر رہے ہیں ۔عمران و قادری کی سیاست نے ،جہدوجہد نے حکومت کو بھی اہم فیصلے اور کارکردگی دیکھانے پر مجبور کر دیا کہ صرف نعروں سے اب عوام بہلنے والی نہیں ہے۔
ان دھرنوں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی نورا کشتی بھی کھل کر عوام کے سامنے آ گئی ۔ دھرنوں کے ذریعے حکومتیں ختم نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہونی چاہیے بلکہ تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعے آ سکتی ہے اس کے ذریعے ہی آنا چاہیے ، جمہوریت کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔ لیکن وہ جمہوریت بھی ہونی چاہیے۔ عوام کو اس کا علم ہوا کہ دونوں بڑی پارٹیاں آپس میں نورا کشتی کھیل رہی ہیں پیپلز پارٹی پر نوارا کشتی کے لگنے والے اس داغ کو دھونے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول زرداری بھٹو نے گرما گرم بیان دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ صرف بیانات ہیںدوسری طرف ان کے والد محترم نے مفاہمت کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے،بلاول زرداری بھٹو نے کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ کر کے سیاست کے میدان میں چھلانگ لگا دی ہے۔
ایم کیو ایم نے نیا صوبہ بنانے کا نعرہ لگا کر حکومت سے الگ ہونے کے بعد اپنی پارٹی کے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز تر کر دی ہیں اب وہ ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے ۔لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بھی شائد نورا کشتی ہو جیسے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں ہے ایسے ہی سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہے ۔یہ بہت جلد آپس میں اتحاد کر لیں گے یا الیکشن کے بعد کر لیں گے لیکن ایک یہ بھی رائے ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا ،عوام اب مزید بے وقوف بننے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اس بات کا ایم کیو ایم کو بھی علم ہو چکا ہے ۔جماعت اسلامی کی سیاست اسلام کے نام پر تھی بہت سے یہ سمجھتے تھے کہ جماعت اسلامی کا مشن اسلامی نظام لانا ہے اور وہ اس میں مخلص ہے۔
لیکن ان کا بھی ،جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونا ،خود صالح ہونا لیکن کرپشن کے خلاف بھی جارحانہ اقدامات نہ کرنا وغیرہ تبدیلی کے خواہاں ،وہ جو چاہتے ہیں کہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا اسلامی نظام رائج ہونا چاہیے جماعت اسلامی سے کسی حد تک مایوس ہو رہے تھے اب جماعت کرے توکیا کرے کہ جمہوریت کوبرا کہے تو وہ جو اقتدار دے سکتے ہیں برا مناتے ہیں اس لیے خود کو جمہوری ان کے لیے اور عوام کے لیے جو ان سے اسلامی نظام کے نفاذ کی امید لگائے ہوئے تھے اسلامی کہلانا چاہتے ہیں اب پاکستان میں اسلامی نظام بذریعہ جمہوریت لانے کے لیے اور اپنے ووٹ بینک کا بچانے کے لیے میدان میں اترچکے ہیں تاکہ اپنے ووٹ بینک کو بچا سکے۔
ان بڑی جماعتوں کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی اپنا ووٹ بینک عمران و قادری سے بچانے کے لیے سرگرم عمل ہو چکی ہیں ۔دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے رواں ماہ کی17 تاریخ کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا ہے ،انکا کہنا تھا کہ پاکستان کو صرف ایک صحیح قیادت ہی بچا سکتی ہے۔ نیویارک میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹائون سانحہ کی ایف آئی آر درج ہوئے چار ماہ گزر جانے کے باوجود ایف آئی آر کی تفتیش آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔
Load Shedding
ان دھرنوں ،جلسوں کی وجہ سے اس وقت حکومت مسلم لیگ ن نے بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنی شروع کر دی ہے ،روزگار سکیم، لوڈشیڈنگ میں کمی،پٹرول کی قیمت میں کمی وغیرہحکومت کا پیٹرول کی قیمت میں خاطر خواہ کمی کا اعلان بہت اچھ اقدم ہے اس کا ریلیف عوام تک پہنچنا چاہیے ۔جب تک پیٹرولیم قیمتوں میں مزید کمی کر کے انہیں دیر تک برقرار نہ رکھا اور ان کی کمی کا اثر عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیاء پر یقینی بناتے ہوئے ان کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی اس وقت تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کی گئی حالیہ کمی عام آدمی کیلئے غیر مفید بلکہ بیکار ہے کہ حکومت چاہے تو دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی کمی کر سکتی ہے لہذا موجودہ حکومت فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی طرح عام آدمی کے استعمال کی روز مرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی بڑے پیمانے پر کمی کا اعلان کرے۔
اس وقت حکومت کو معاشی اور سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ سوسائٹی میں پیدا ہونے والی معاشرتی تقسیم نے ملک کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں غربت ،بے روزگاری، مہنگائی، ناانصافی، رشوت کا ناسور ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور دہشت گردی، فرقہ پرستی اور تشدد ایک فیشن بن کر ابھرا ہے ۔اخبارات کی خبروں کے مطابق تھرپارکر میں موت کا ”رقص ”جاری ہے مٹھی میں غذائی قلت کے باعث ایک اور بچی دم توڑ گئی، 5 ہفتو ں میں ہلاکتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ، جبکہ سول اسپتال مٹھی میں اب بھی 80 سے زائدبچے زیر علاج ہیں۔ حکومت کو ا یسے مسائل پر فوری توجہ دینی چاہیے۔
ایسا ہی ایک مسئلہ پولیو ہے رواں سال ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 235 تک پہنچ گئی ہے، بین الاقوامی دبائو اور حکومتی اقدامات کے باوجود ارضِ وطن کو پولیو سے مکمل طور پر پاک نہ کیا جا سکا.اس کے لیے بیرون ممالک ویزوں پر پابندی لگنے کا امکان ابھی تک موجود ہے ۔اگر حکومت نے اوپر درج مسائل کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین اور آئی ڈی پیز کی بحالی پر قابو پا لیا تو اس کو پانچ سال پورے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔میں بھی آپ کے ساتھ منتظر ہوں کہ آئندہ کے سیاسی و ملکی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔