تجزیہ (ایم آر ملک) کیا ن لیگ میں دیرینہ ہمدموں نے بغاوت کی حتمی لکیر کھینچ دی اور مسلم لیگ ن میں دراڑیں واضح ہو رہی ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو سابق صدر مسلم لیگ ن سردار زوالفقار خان کھوسہ کے اس موقف کے بعد زبان زد عام ہے جو گزشتہ روز اُنہوں نے خواجہ سعد رفیق کی قیادت میں مصالحت کیلئے آنے والے وفد کے سامنے شریف برادران سے ملنے سے انکار کی شکل میں اپنایا یہی نہیں۔
اُنہوں نے شریف برادران کے ساتھ مصالحت سے بھی انکار کرتے ہوئے اس موقف کا عادہ کیا کہ وہ اور سید غوث علی شاہ اُن ورکروں کو فعال کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرنے والے ہیں جنہوں نے مشرف دور میں قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں، ناجائز پرچے اُن کا مقدر بنے مگر میاں برادران نے ان ورکروں کو وطن عزیز میں آمد کے بعد یوں نظر انداز کیا جیسے اُن کا کوئی وجود ہی نہیں اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ جنوبی پنجاب میں بشارت رندھاوا، عابد انوار علوی، ملک عبدالشکور سواگ نے اقتدار کو عین اُس وقت ٹھوکر ماردی جب چوہدری پرویز الٰہی نے اُنہیں انتہائی پرکشش مراعات کی پیش کش کی میان برادران سے وفا کی شکل میں جنوبی پنجاب کے نظریاتی ورکر بشارت رندھاوا کے گھر کی لاش مشرف آمریت کے خلاف گری ،عابد انوار علوی کی آواز ایک مزاحمت بن کر ہر ایوان پر سنائی دی ملک شکور سواگ نے وفا کی پیٹھ نہ لگنے دی۔
میاں نواز شریف کی طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹنے پر میاں برادران کی خاطر جب لیہ کا چا چا قمر الدین عادل انصاری راولپنڈی پہنچا تو اُس کی ٹانگ میں پولیس کی گولی لگی مگر ن لیگی قیادت کا کوئی کارندہ اُس کے بستر علالت پر ہمدردی کا ایک بول بولنے کیلئے نہ پہنچا ایسے ورکروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں یہ سوچنے پر یقینا مجبور کرتی ہیںکہ ن لیگ میں دراڑیں وقت کا تقاضا ہیں۔