تحریر : ایم سرور صدیقی لاہور کی فروٹ منڈی کے عقبی بازار میں ایک دکان پر میں ایزی لوڈکے لئے رکا تو عجب منظر دیکھا دکاندار نے کلو کلو آٹا تول کر شاپروں کا ڈھیر لگا رکھا تھا میں نے ججھکتے ججھکتے پو چھ ہی لیا یہ آٹا خیرات کرنا ہے کیا؟۔۔ اس نے حیرت سے میری جانب یوں دیکھا جیسے میرا دماغ چل گیا ہو۔۔بولا میں تو خود غریب ہوں مشکل سے گزاراہوتا ہے میں نے کیا سخاوت کرنی ہے۔۔ میں نے آٹے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا پھر یہ کیا ہے؟۔
حالات کے مارے دن بھر مزدوری کرتے ہیں شام کوگھر جاتے اپنے بیوی بچوںکیلئے یہ آٹا لے جاتے ہیں یہ روزانہ کا معمول ہے شاشے چائے کی پتی، پائو آدھ پائو گھی۔اتنی ہی مقدارمیں چینی۔۔بائو جی لوگوںکی حالت اتنی قابل ِ رحم ہے کہ کبھی کبھارجی چاہتاہے میں اپنی دکان کا سب کچھ ان میں بانٹ دوں مگر میں۔۔۔وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گیا اسی اثناء میں ایک لڑکا کلو آٹا اور کچھ سامان خریدنے آگیا چیزیں زیادہ پیسے کم۔۔کبھی یہ نہ دو کبھی وہ نہ دو۔۔ بے چارے سے جو بن پڑا خریدا ۔۔سوچ میں گم لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ گھر کی جانب جانے لگا میں بھی سوچ میں گم کہ زندگی ان سے کیوں اتنا بے رحم سلوک کررہی ہے؟ کمال ہے کمپنیوںنے بچوں کیلئے 10روپے والا دودھ کا پیکٹ بھی نکال دیا ہے۔۔
اچھا کیا لگتا ہے آپ بھولے بادشاہ ہیں۔۔کریانہ فروش کے لہجے میں تلخی تھی۔۔لوگوںکی قوت ِ خرید دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اسی لئے حکومت بڑے نوٹ اور کمپنیاں اپنی مصنوعات کے چھوٹے پیک متعارف کروارہی ہیں تاکہ کسی نہ کسی انداز سے کاروبار چلتارہے 10 روپے والا دودھ کا پیکٹ Tea Whitenerہے۔۔۔وہ بولا تو بولتاہی چلا گیا میرے پاس روزانہ ایک بزرگ 10 والا دودھ خریدنے آتاہے اس کے چار فیملی ممبرآدھا آدھا کپ چائے پیتے ہیں اس سے زیادہ ان کے پاس ”عیاشی” کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔سننے والے کی بولتی بند ہو گئی۔
Meat Shop
بوڑھی عورت کافی دیر سے بڑے گوشت کی دکان پر بیٹھی ہوئی تھی چہرے پر آڑھی ترچھی لکیریں اور اس کی تہہ میں چھپی کئی کہی ان کہی کہانیاں حالات کی سنگینی کااحساس دلارہی تھیں قصاب نے دو مرتبہ پوچھا بھی اماں جی کیا لیناہے۔۔پہلے گاہک فارغ کرلو مجھے کسی کاانتظارہے کچھ دیر بعدجب رش ختم ہوا بوڑھی عورت اٹھی اس نے لٹکتے ہوئے پھیپھڑے کی طرف اشارہ کرکے ریٹ پو چھااس کی آنکھوں میں آنسو تھے پھر کہا ایک کلو کا قیمہ بنادو قصاب کی حیرت سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔پھیپھڑے کا قیمہ وہ بڑبڑایا ہاں بھائی ۔۔بوڑھی عورت نے امڈتے آنسو بمشکل روکتے ہوئے جواب دیا کئی دنوں سے بچے قیمہ بھرے کریلے کھانے کی فرمائش کررہے ہیں اگر ہم احساس کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بغور جائزہ لیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔۔ایسے ایسے سفید پوش ہیں جن کے حالات کا ہمیں پتہ چلے تو کلیجہ منہ کو آنے لگے لیکن کریں کیا؟ ارباب ِ اختیارکو کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیںکتنے ہی اسحق ڈار روز واویلہ کر رہے ہیں پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اپوزیشن بھی سیاست چمکانے کیلئے غریبوں کی بات کرتی ہے حکمران ہیں کہ بلند و بانگ دعوئوںکو ہی اپنی کارکردگی سمجھنے لگے ہیں۔حکومت نے زکوٰة دینے کے نام پر غربیوںکو بھکاری بنا کررکھ دیا ہے آج تک کسی حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کیلئے حقیقی اقدامات نہیں کئے قرضہ سکیمیں بھی ان کے لئے ہیں جوباوسائل ہیں جن بے چاروںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ گارنٹر کہاں سے لائیں یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔۔ عام آدمی کے وسائل کم ہورہے ہیں،مہنگائی اور بیروزگاری بڑھنے سے لوگوںکا حشر نشرہوگیاہے۔۔۔کم وسائل جس اذیت۔جس کرب سے گذررہے ہیںوہ جانتے ہیں یا ان کا رب ہی جانتاہے۔۔۔اب کون سوچے بہتری کیسے ممکن ہے۔غربت کو بدنصیبی بننے سے کیسے روکا جائے اس کا یقینا حل بھی ہونا چاہیے پاکستان میں دردِدل رکھنے والے مخیر حضرات کی کوئی کمی نہیں سارا سال بالعموم اور ماہ ِ صیام میں بالخصوص آپ نے کئی گھروں، اداروں یا سماجی تنظیموں کے دفاتر کے آگے مفلوک الحال، غریب اور مستحقین کی لمبی لمبی قطاریں لگی دیکھی ہوں گی زکوٰة ،خیرات اور صدقات دینے کیلئے صاحب ِ ثروت اپنی استطاعت کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور انکے لواحقین کیلئے لنگر خانے اورغریبوں کیلئے دستر خوان کا رواج بھی فروغ پانے لگا ہے۔۔۔ یہ سب اپنے رب کو راضی کرنے کا وسیلہ ہیں کہ اس کی مخلوق کی خدمت کی جائے لیکن یہ سب وقتی ہے اس کے دیرپا اثرات نہیں۔۔مخیر حضرات اور صاحب ِ ثروت سے اتنی گذارش ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہرسال کم ازکم ایک فرد کو روزگارکے وسائل مہیا کریں، کئی لوگ کام تو کررہے ہیں لیکن سرمائے کی کمی کے باعث ترقی نہیں کر پا رہے۔ زیادہ تر بیروز گار ہیںملک میں با صلاحیت لوگوںکی کوئی کمی نہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابرہیں لاکھ دو لاکھ سے کئی چھوٹے کاروبار شروع کئے جا سکتے ہیں میری خواہش اور التجا ہے کہ اس کو لازمی اپنے پروگرام میں شامل کریں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عزت ِ نفس مجروح کئے بغیر یہ لوگ مستقل بنیادوںپر اپنے خاندان کی کفالت کے قابل ہو جائیں گے کسی کا کچن چلتا رہے یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ جو طالبعلم ہو نہار ہیں لیکن کالجزکی فیس افورڈ نہ کرنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ بھی آپ کی توجہ کے حقدار ہیں۔
دنیا میں بہت سے کام بڑی بڑی حکومتیں نہیں کر پاتیں لیکن سماجی شخصیات ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں بس تھوڑی سی توجہ، کوشش اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ملک سے غربت اور بیروزگاری ختم کرنے کے لئے ایسے ہی انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے صرف آغاز میں ہی مشکلات ہوتی ہیں پھر دئیے سے دیا جلتا جاتاہے ہم دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو بیسیوں ایسے افرادنظر آئیں گے جو تھوڑی سی توجہ سے معاشرے میں با عزت مقام پا سکتے ہیں آئیے!آج صدق ِ دل سے ایک نئے مشن کا آغاز کریں ہر سال ایک فردکو روزگار اور ایک غریب طالبعلم کی فیس کا اہتمام کرنے کا عزم کریں۔ یہ قوم کے درخشاں اور روشن مستقبل کی علامت ثابت ہوگا۔۔پھر دیکھئے غربت کیسے ختم ہوتی ہے اور جہالت کے اندھیرے کب اور کہاں غائب ہو جائیں گے۔۔۔یہ سوچ ہے آپ کی۔۔۔ اس نیکی کے طفیل ہو سکتاہے کسی کو کلو کلو آٹا یا پھیپھڑے کا قیمہ خریدنے سے نجات مل جائے۔۔۔شاید یہی نیک عمل ہمارے لئے نجات کا سبب بن جائے۔