تحریر:کوثر رحمتی خان اللہ کے نام پر بابا ،تیرے بچے جیئیں، سائیں اللہ تیری جوڑی سلامت رکھے اس غریب کو کچھ دیتا جا۔ چلتے پھرتے یہ فقرے ہم سنتے ہیں ،ہر گلی ہر چوراہے اور ہر تفریح گاہ پر یہ صدائیں گشت کرتی رہتی ہیں ۔اب ایسا لگتا ہے کہ یہ فقرے ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہم کہیں بھی چلے جائں ان سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ زمانے کے بدلتے اطوار کے ساتھ ساتھ گداگری نے بھی نت نئے انداز اختیار کر لئے ہیں وقت کے ساتھ اس پیشے سے منسلک افراد کافی ترقی یافتہ اور باشعور ہوگئے ہیں۔ یقین جانئیے یہ انسانی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں ۔یہ فوراََ اندازہ کرلیتے ہیں کہ آپ کی کمزوری کیا ہے اور کہاں چوٹ کرنا ہے۔تقریباََ ہر سگنل پر کالا برقع اوڑھے گود میں شیر خوار بچہ لئے عورتیں بھیگ مانگتی ہیں
ہٹے کٹے مرد معذور بنے گلے میں منکوں کا ہار ڈالے ،ہاتھ میں کشکول لئے حق اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ان میں سے اکثر اندھے اور لنگڑوں کو بھی ہم نے بلکل صحیح حالت میں دیکھا ہے۔جی تو چاہتا ہے کہ ان کو مزہ چکھائیں مگر دل مسوس کرکے رہ جاتے ہیں۔یہاں تک تو قابل قبول تھا مگر پھول سے بچوں اور کلیوں سی بچیوں کو اس روزگار کی دوڑ میں شامل کرنا بھی انتہائی بے دردی کے ساتھ ،کہ شدید سردی ،چلچلاتی دھوپ،آگ برساتا آسمان تلے بھیگ مانگوانا اور دور کھڑے ہوکر خونخوار نظروں سے ان کی نگرانی کرنا ،یہ ایسے دلسوز مناظر ہیں جو کراچی کی ہرشاہراہوں پر جابجا نظر آتے ہیں۔یہ سب دیکھ کر ہمارا دل کٹ جاتا ہے ہماری روح کانپ جاتی ہے
مگر حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ کیا انہیں خدا اور اس کے رسول کا نام بیچتے ہوئے خوف نہیں آتا ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا ۔نجانے کس گلشن سے یہ ظالم ان پھولوں کو نوچ کرلے آتے ہیں۔فی زمانہ اس لعنت نے نئے نئے روپ دھار لئے ہیں ۔مثلاََ ہر بس ہر کوچ میں مسجد کا چندہ مانگنے والے نوجوان انتہائی دردناک آواز میں مسجد کی تعمیر ات جانے المیہ بیان کتے ہیں حالانکہ اس مسجد کا کرہ ارض پر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ہر پارکنگ ایریا اور تفریح گاہوں کے آس پاس بچے اور نوجوان ہاتھ قرآنی آیات لئے گھومتے ہیں ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کو کچھ نہیں بھی لینا تو مداد کر دیجئے۔
Allah
اس کاروبار میں ایک بڑا کردار تیسری جنس کا ہے جن کو عرف عام میں خواجہ سرا کہتے ہیں۔یہ اب ہر سگنل اور ہر شاپنگ سنٹرز میں نظر آتے ہین۔اللہ رسولۖ کا واسطہ دیتے ہوئے آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ایک اور قوم بھی اس کاروبار میں شامل ہوگئے ہین وہ ہے شاہ دولہ کے چوہے یہ ہر عورت اور مرد کو پکڑ تے ہیں ان کے سروں پر ہاتھ رکھ دیتے ہیناور ساتھ ہی آسمان کی جانب انگلی ٹھائے دعائیں مانگتے ہیں خواتین خوف کے مارے ان کو جلدی سے کچھ دے کر جان جھڑاتی ہیں۔مزارات ان سرگرمیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیںیہ اہل ہنر نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں مسلط ہوتے جارہے ہیں۔قدم قدم پر گداگروں کی بھر مار اس بات متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
Government Of Pakistan
کیا حکومت کا اس ضمن میں کوئی فرض نہیں ،کیا وہ مجاز نہیں کہ وہ گداگری لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ عام شہری اس عذاب سے مسلسل کا کوئی تو سدِباب ہو۔