صاحبو! یہ فقرہ اتنی دفعہ بولا گیا کہ ہر پاکستانی کے ذہن میں سوار ہو گیا۔ اور یہ بات بھی پاکستانیوں کے ذہن پر سوار ہو گئی کہ آج تک اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا۔معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ پاکستانی قوم کے مجرم سابق فوجی ڈکٹیٹر نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے دوران پاکستانی مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مسلمانوں کے دشمن صلیبی امریکی حکمران کے حوالے کیا جس میں مظلومہ قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل تھی۔
اس سے ڈالر کمائے جس کا ذکر ڈکٹیٹر نے اپنی کتاب”سب سے پہلے پاکستان” میں بھی کیا اور میڈیا میں بھی بے خوف و خطر ذکر کرتا رہا۔ مکافات عمل کو دیکھئے کہ جو کہا کرتا تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں وہ ملٹری ہسپتال میں خوف کی وجہ سے چھپا رہا۔اپنی حفاظت کے لیے دبئی سے پرئیویٹ گارڈ لایا تھا اور پاکستان کے اسیکورٹی ادارے اس کے علاوہ ہر موومنٹ پر اس کی حفاظت پرمامور رہے جس کی وجہ سے عوام کے خزانے پر بوجھ پڑا۔ خود ا ن گنت مقدمات میں ملوث ہے۔ باہر بھاگنے کے مختلف بہانے ڈھونڈتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ بڑے تمطراق سے پاکستان میں الیکشن لڑنے آیا۔ متحدد سیٹوں پرکھڑا بھی ہوا ہر جگہ سے الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا۔
اب مختلف مقدمات میں اپنے کئے کی سزا تاریخوں کی صورت میں بھگت رہا ہے۔خیر ڈکٹیٹر تو اپنے اس جرم کی سزا بھگت رہا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کے موجودہ اور سابقہ صدور، موجودہ اور سابقہ وزیر اعظم، موجودہ اور سابقہ وزیر داخلہ ،دھرنا قائدین اور سیاسی اکابرین میں سے ہر ایک نے یہ جملہ عوام کے سامنے نہیں کہا تھا کہ”عافیہ میری بیٹی ہے، میں اسے لائوں گا” یقیناّ کہا تھا !پاکستان کے عوام اس کے گواہ ہیں۔پیپلز پارٹی دور میں ڈاکٹر عافیہ کے لیے کچھ کام ضرور ہوا اور ڈاکٹر عافیہ کا بیٹا اور بیٹی واپس اس خاندان کے حوالے کیے گئے اس کا عوام کی طرف سے ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سابقہ وزیر داخلہ کے ناپسندیدہ کاموں میں یہ کام قابل تعریف ہے۔
مگر اسی پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خارجہ اور اب بھگوڑے نے ڈاکٹرعافیہ کو امریکی خوشنودی کے لیے صحیح قانونی امداد مہیا نہ کر کے کیس کو خراب کیا تھا۔وہ بھی اپنی پاکستانی قوم کے سامنے بحثیت مجرم، امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے صدر نے بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اسی پارٹی کے دو وزیر اعظم بھی ڈاکٹر عافیہ کو اپنے وعدوں کے باوجود واپس نہ لا سکے۔پھر اب موجودہ حکومت کے صدر ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بھی قوم کے سامنے یہی ،ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا کچھ پیش رفعت بھی ہوئی مگر نامعلوم وجوہات کی وجہ سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
کچھ مدت پہلے کابینہ کی میٹنگ میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ قیدیوں کے تبادلے کے قانون پر معاہدہ کر کے ڈاکٹر عافیہ کو واپس لائیں گے مگر لگتا ہے امریکی امداد نے معاملہ آگے نہیں بھڑنے نہیں دیا۔رہا معاملہ دھرنے والوں کا تو ایک تو اپنے انقلاب کے ساتھ ہی اپنے پرانے مستقر پر چلے گئے اور انقلاب جو آج آ رہا تھا کل آ رہا تھارہا تھا وہ رفوچکر ہو گیا اور کارکن مایوس ہو کر اپنے خیموں سمیت گھروں کو چلے گئے۔ دوسرا دھرنا اب واپس نواز شریف کے استفیٰ سے دستبردار ہو کر اپنی ساکھ خراب کر بیٹھا ۔حکومت اب اس کی کوئی بات نہیں مانے گی اور یہ دھرنا بھی ختم ہو جائے گا۔ شاید یہ بھی قوم کی مظلوم بیٹی کو کو نظر انداز کرنے کی سزا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
Dr Fauzia Siddiqui
سیاسی اکابرین بھی اپنے وعدے کو بھول گئے ہیں وہ اپنے پروگراموں میں ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کی بات نہیں کر رہے۔ ڈاکٹر عافیہ موومنٹ کی تحریک چلانے والی اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کالم نگاروں کو ایک خط کے ذریعے اپیل کی ہے کہ اس معاملہ کو زیادہ زور سے اُٹھائیں تا کہ حکومت اس بات پر پھر مجبور ہو اور اپنا وعدہ جو پاکستانی قوم سے کیا تھا وہ پورا کرے مجھے بھی ڈاکٹر فوزیہ کا خط آیا۔صاحبو!یہ ڈاکٹر فوزیہ ہی ہے جو عافیہ موومنٹ کو چلا رہی ہے۔ میں اس دکھیا خاتون سے اس وقت مانوس ہوا تھا جب اس نے مجھے کچھ سال قبل لاہور سے ای میل کے ذریعے بتایا کہ میں عید کے موقعے پر پریشان بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کاش کوئی کالم نگار میری قیدی بہن کے لیے اس عید کے موقعہ پر مضمون لکھ کر حکمرانوں کو ان کے کئے ہوئے وعدے یاد دلائے کہ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ٨٦ سال کی قید کاٹ رہی ہے۔
کہتی ہیں میں کراچی کا اخبار نوائے وقت دیکھ کر خوش ہو گئی کہ آپ نے یہ کام کر دیا ہے۔اس کے بعد وہ مجھے عافیہ موومنٹ کے پروگراموں میں بلاتی رہیںاور میں بھی عافیہ موومنٹ کا ایک فرد بن گیا۔ اس تعارف سے پہلے ہی میں اس دکھیا خاتون کی بہن ڈاکٹر عافیہ کے لیے مختلف وقتوں میں مضمون لکھتا ر ہا اور اب بھی ان شاء اللہ لکھتا رہوں گا۔ امریکہ نے گرفتار تو عافیہ کو دہشتگردی میں کیا گیا تھا۔ امریکی محکمہ انصاف کی بے انصافی کے خلاف عافیہ کی بہن فوزیہ نے آواز اُٹھائی اوردنیا کے ٦٦ ملکوں میں عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے ہوئے ۔ عدالت دہشت گرد ثابت نہ کر سکی۔
امریکی عدالت نے صرف اس بنیاد پر عافیہ کو ٨٦ سالہ سزا سنائی تھی کی اس نے امریکی میرین پر بندوتانی اور فائر کیا تھا یہ بھی عدالت خود تسلیم کرتی ہے کہ کوئی سپاہی مرا نہیں صرف زخمی ہوئے۔( جس کا عافیہ نے عدالت میں انکار کیا تھا) عافیہ مومنٹ کی جانب سے پاکستان بھر میں ملک گیر احتجاج کیا گیا ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں ،سول سوسائٹی، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا بڑ ے بڑے مظاہرے کئے گئے۔ عافیہ موومنٹ کی اپیل پر پچھلے دنوںایک لاکھ سے زائد دستخط کروا کے امریکی صدر سے رہائی کی اپیل بھی کی گئی تھی مگر بات نہ بنی۔ پاکستان کی عدلیہ نے بھی ڈاکٹر فوزیہ کی پیٹیشن پر فیصلہ سنایا تھا۔ ١٣ جولائی ٢٠١٣ء کو سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کو حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ ریپٹریشن (قیدی کا تبادلہ کا قانون)پر ٹھوس قدم اٹھائے اور ڈاکٹر عافیہ کو واپس پاکستان لائے۔
امریکی حکومت بھی اس پر راضی ہو گئی تھی کہ عافیہ باقی قید اپنے ملک میں کاٹے۔ ن لیگ کی حکومت نے پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی۔ امریکہ کی اس تجویز کو حکومت پاکستا ن کی وزارت خارجہ نے لاء منسٹری کے حوالے کیا کہ وہ قانونی پوزیشن واضح کرے۔ لاء منسٹری نے اس پر کوئی ا عتراض نہیں کیا اور وزارت خارجہ کو واپس کاروائی کی لیے بھیج دیا اب وزارت خارجہ نے اس تجویز کو کیبنیٹ کے سامنے رکھنے کے لیے بھیج دیا اور کیبنٹ کی میٹنگ ٢٨ اگست ٢٠١٣ ء کو ہو ئی تھی۔ جس میں اس کیس کو رکھا گیا تھا۔اس پرورثاء اور عافیہ سے وکیل کے ذریعے تحریری رضا مندی حاصل کر لی گئی ہے۔
اس میں کیبنیٹ اگر اسے پاس کر دیتی ہے تو ضروری کاروائی کے بعد عافیہ ہفتے بھر کے اندر واپس پاکستان کی کسی بھی جیل میں سزا کانٹنے کے لیے واپس آسکتی ہے ذرائع نے اس پر تبصرہ کرتے کہا ہے کہ اگر نواز شریف سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو کیبنیٹ سے پاس کروا دیتے ہیں تو یہ عوام کے دل جیتنے کا بہترین موقع ہے۔ نامعلوم وجوہات کے سبب آج تک کاروائی کا کچھ پتہ نہ چلا۔ کچھ ماہ قبل عافیہ نے امریکی قانون کے مطابق اپنی رہائی کی اپیل کر رکھی تھی۔اس کے ساتھ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ خود ہی مدعی،خود ہی وکیلاور خود ہی منصف کی سیٹ پر برا جمان عافیہ کی رائے لیے بغیر،متعصب جج رچرڈ برمن نے پر اسرار طور پر عافیہ کی اپیل واپس لے کر مقدمہ بند کر دیا جس سے قانونی راستہ بھی ختم کر دیا ہے۔ کیا دنیا میں امن کا یہی پیمانہ ہے۔ مہذب دنیا کو اس پر آواز بلند کرنی چایئے۔
قارئین! عوام سے درخواست ہے کہ وہ حکمرانوں کو بھی یاد دلائیں کہ کیا وہ اپنی بیٹیوں سے یہ سلوک برداشت کریں گے؟ اللہ ہمیں مظلومہِ امت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔