روس (جیوڈیسک) نیٹو کے سینیئر ترین فوجی کمانڈر کے مطابق رواں ہفتے روس کے فوجیوں کو جنگی ساز وسامان کے ساتھ یوکرین میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ نیٹو کے کمانڈر جنرل فلپ بریڈلوو نے بلغاریہ کے دورے کے موقعے پر روسی فوجیوں کی یوکرین میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اس کا مقصد مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں اضافی کمک پہنچانا ہو سکتا ہے۔
یورپ میں فوجی کشیدگی کی خفیف لہریں ’اس کی مدد سے ہو سکتا ہے کہ انھیں مزید علاقے ساتھ ملانے اور انھیں طویل مدت تک قبضے میں رکھنے میں مدد مل سکے۔‘ تاہم یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر جنرل فلپ بریڈلوو نے روسی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا اور نہ ہی ہتھیاروں اور گاڑیوں کے بارے میں وضاحت کی لیکن یہ کہا کہ نیٹو نے گذشتہ دو دن کے دوران یوکرین میں داخل ہونے والے روس کی فوجی اہلکاروں، بکتربند گاڑیوں، توپخانے کے قافلوں کو دیکھا ہے۔
جنرل فلپ بریڈلوو نے یہ بھی تصدیق کی کہ نیٹو کے خیال میں روس جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائل کرائمیا منتقل کر رہا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولنبرگ نے ایک علیحدہ بیان میں کہا ہے کہ عسکری قوت میں قابلِ ذکر اضافہ کرنے سے پانچ ستمبر کو طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انھوں نے روس پر زور دیا کہ وہ علاقے سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے تاہم روس کی وزارتِ دفاع نے مشرقی یوکرین میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے اپنے فوجی بھیجنے کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
روس سے متصل مشرقی یوکرین میں روسی نواز باغیوں کی علیحدگی کے تحریک کے بعد اپریل میں یوکرین نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی فوج علاقے میں بھیجی تھی اور اس کے بعد کئی ماہ تک ہونے والی لڑائی میں دونیتسک اور لوہانسک کا علاقہ باغیوں کے قبضے میں آ گیا اور یہ لڑائی جنگ بندی کے معاہدے کے بعد رکی تاہم اب بھی فریقین میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ اپریل سے اب تک علاقے میں جاری کشیدگی کے دوران چار ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
یوکرین کے بحران پر روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور پورے یورپ میں فوجی کشیدگی کی خفیف لہریں محسوس کی جا رہی ہیں۔ نیٹو نے یوکرین میں روس کی دخل اندازی کے جواب میں کیئف کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا شروع کر دیے ہیں اور مشرقی اور وسطی یورپ کے اتحادیوں کے ساتھ فضائی نگرانی اور فوجی مشقوں میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری جانب روس نے اس کے جواب میں زیادہ سرگرم، اور بعض لوگوں کے خیال میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے اور سرد جنگ کے زمانے جیسی سرگرمی دکھا رہا ہے جس میں وہ نیٹو کے دفاع کو آزمایا کرتا تھا۔