تحریر : لقمان اسد اگر اسقدر نقصان اور اس قدر دربدر تخت لاہور کے باسی ہوئے ہوتے تو ملک بھر میں ایک طوفان بپا ہوتا خادم اعلیٰ کی راتوں کی نیندیں حرام اور دن کا سکون غارت ہوتا مگر زہے نصیب کہ دھرتی کے ایک پسماندہ ضلع لیہ کے سیلاب زدگان اور دریائے سندھ کے کٹائو کی وجہ سے دربدر کسانوں ،بے گھر ہوئے غریبوں، مزدوروں اور بے کسوں کا کوئی پر سان حال نہیں ۔2002ء سے جاری دریائے سندھ کے کٹائو نے سونا اگلتی زمینوں کو ہضم کرنے کے ساتھ ساتھ ہنستی بستی انسانی آبادیوں پر مشتمل درجنوں بستیوں کو بھی ہڑپ کر لیا۔ اپنے پائوں پر کھڑے نوجوان بزرگ اور بوڑھے آج اپنی زمینیں دریا برد ہوجانے کی وجہ سے دربدرکی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں جن میں سے کئی جواں سال نوجوان جنکی عمریں بستہ میں کتابیں ڈال کر سکولز اور کالجز جانے کی تھیں وہ تھل کے زمینداروں کے ڈیروں پر معمولی تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
کیا کریں کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو گھر میں قحط پڑتا ہے۔ 2002ء سے جاری دریائے سند ھ کا کٹائو سینکڑوں ایکٹر زرعی اراضی کو نگل چکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن مجال ہے کہ خادم اعلیٰ سمیت کسی وفاقی یا صوبائی وزیر شذیر کو کبھی اس حساس ایشوپر کوئی بات کرتے دیکھا یا سنا ہو۔ضلع لیہ کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی طرف سے بھی ان تباہ کاریوں پر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے فورم پر اس اہم ایشوپر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ایک درجن وزارتیں ایک ہی قلم دان کی زنبیل میں سنبھالنے والی سرکار جناب ملک سردار احمد علی اولکھ نے بھی یہ آواز کبھی نہ اٹھائی کیوں کہ خادم اعلیٰ کے تھانیدارانہ رویہ سے وہ ڈرتے تھے۔
ضلع لیہ کے پڑھے لکھے اور دانشور سیاست دان سابق بیوروکریٹ سردار بہادر احمد خان سیہڑ نے بھی اپنی دونوں باریوں کے عرصہ اقتدار میں کہ جس میں ایک مرتبہ وہ وفاقی وزیر کے عہدہ پر بھی براجمان رہے نے بھی اس اہم معاملہ پر مکمل چپ سادھے رکھی ۔حالانکہ وہ چاہتے تو چوہدری برادران میں جنوبی پنجاب کے حوالے سے اتنا بخل نہ تھا جتنا تخت لاہور کے موجودہ تھانیداروں کے اندر ہے ۔2008ء کے عام انتخابات میںلیہ کو نوجوان قیادت نصیب ہوئی اور انہوں نے لیہ کے باسیوں کو بہت سہانے خواب بھی دکھائے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر فتح یاب ہونے والے پیر جگی شریف کے سید حافظ ثقلین شاہ بخاری فتح یاب ٹھہرے ان کا یہ نعرہ تھا کہ لیہ کو فری انڈسٹریل زون قرار دلوانے اور لیہ کی پسماندگی کا خاتمہ صنعتوں کے قیام پر ہی ممکن ہے۔
Elections
گویہ آواز وہ اپنی 2008کی الیکشن کمپین کے دوران بلند کرتے رہے اب وہ دوسری مرتبہ ایم این اے ہیں مگر لیہ کی ترقی سب کے سامنے ہے افتخار علی بابر کھیتران جو کہ گزشتہ الیکشن پاکستان تحریک انصاف پر لڑ چکے ہیں جب وہ ممبر صوبائی اسمبلی تھے وہ لیہ تونسہ پل دریا کے کٹائو سے متاثر ہ افراد کی بحالی اور سپر بندوں کی تعمیر کے وعدے فرماتے رہے لیکن ناکام ٹھہرے۔افتخار بابر کی جگہ اب ایک اور نوجوان چوہدری اشفاق احمد نے سنبھالی ہے لیکن وہ بھی ابھی تک لیہ میں کوئی میگا پراجیکٹ خادم اعلیٰ سے منظور کرا کر لانے میں میں ناکام ہیں۔ان سطور کی وساطت سے خادم اعلیٰ پنجاب ہاں اگر واقعی وہ پورے صوبہ کو اپنا اور واقعتا اپنے آپ کو خادم اعلیٰ تصور کرتے ہیں۔
تخت لاہور کا تھانیدار تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ نے 1997ء میں کہ جب یہاں آپکا ایک متوالا اور نظریاتی ورکروں کے سر پر دست شفقت رکھنے والا ملک غلام محمد سواگ شہید ایم پی اے تھا تو آپ نے دریائے سندھ کے کٹائو سے بے گھر ہونے والے افراد کیلئے سرکاری زمین پر ایک مکمل گائوں ”چک شہباز آباد ” کی بنیاد رکھی تو اب بھی آپ تخت لاہور کا بغض ایک طرف رکھ کرچلو چک ”حمزہ آباد” کے نام سے متاثر ہ افراد کیلئے جگہ مختص کریں اور لیہ تونسہ پل کیلئے بھی فنڈز مہیا کریں انہی سطور کی وساطت سے جنا ب صاحبزادہ فیض الحسن ،جناب سید ثقلین بخاری،جناب مہر اعجاز اچلانہ،جناب سردار قیصرخان مگسی، اور جناب چوہدری اشفاق کی خدمت اقدس میں عرض ہے کہ وہ خادم اعلیٰ اور دھرنوں کی زد میں آئے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے اس معاملے پر بات کریں اور اسمبلی کے فورم پر بھی بات کرکے اپنے ضلع کے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کریں۔
مظفر گڑھ کا جمشید دستی ان ایشوز پر آواز اٹھا سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں؟اگر لاہور میں دن دیہاڑے اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس،اوور بریجز،انڈر پاسز،میٹرو بس منصوبہ اوررائیونڈ روڈزجیسے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے جا سکتے ہیں تو جنوبی پنجاب کے اس پسماندہ ضلع کیلئے اتنے اہم منصوبوں کیلئے فنڈز کا اجراء کیوں نہیں کیا جاسکتا؟کیا یہاں لوگ نہیں بستے؟کیا آپکی جماعت کو یہاں کے لوگ ووٹ نہیں دیتے؟سوال تو یہ ہے کہ ”تخت لاہور” لاہور اور اپر پنجاب کے اضلاع کے علاوہ جنوبی پنجاب کے عوام کو تھر کا باسی کیوں سمجھتا ہے۔