تحریر: نجیم شاہ دورے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دورۂ صرف دل کا ہوتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ مرگی اور بے ہوشی کا ہوتا ہے، مگر اِن دوروں سے ہٹ کر ایک غیر ملکی دورۂ بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ حکمرانوں کا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔ دورۂ چاہے کوئی بھی ہو، ہر طرح سے غریب عوام کے لیے ہر حال میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چلو دِل کا دورۂ تو ہوتا ہی نقصان دہ ہے، پاگل پَن اور مرگی کا دورۂ بھی کوئی اچھی علامت نہیں اور بے ہوشی کا دورۂ تو بس نہ پوچھئے، مگر یہ غیر ملکی دورۂ کیسے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یہ تو خارجی تعلقات کو فروغ دیتا ہے، قرضوں کی سپلائی بحال کرتا ہے، باہمی اقتصادی تعلقات مستحکم بناتا ہے اور آنے والے چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کرنے کے عزم کو جلا بخشتا ہے، لیکن جناب عالیٰ جب یہ غیر ملکی دورے میڈیا کے سینکڑوں نمائندوں، درجنوں ذاتی خادموں، مَن پسند شاہی افسران کے پینل، پورے خاندان کے افراد اور پوری کابینہ کے ارکان پر مشتمل ہوں اور قومی خزانے کے کروڑوں روپے ہوٹل کے بیروں کی ٹِپ، سیرو و تفریح اور شاپنگ کی نظر ہو جائیں تو یہ غیر ملکی دورے دل، دماغ، پاگل پَن اور بے ہوشی کے دوروں سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کر جاتے ہیں۔
ماضی میں ہمارے انتہائی شریف اور لاثانی حکمران اپنے اپنے دورِ اقتدار میں اس قسم کے غیر ملکی دورے کر چکے ہیں۔ اِن دوروں نے ہماری معیشت کو اکیسویں صدی میں ”گدھا گاڑی” پر سوار کر دیا ہے، جبکہ ہمارے مدمقابل اور مدمخالف ممالک کی معیشت ”راکٹ” پر سوار ہو کر چاند کی سیر کر رہی ہے۔ حکمرانوں کے غیر ملکی دورے اگر بامقصد ہوں تو اس سے ملک کے عوام اور معیشت دونوں کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن اگر شاہانہ اخراجات کے ساتھ یہ دورے صرف فیملی وزٹ کا درجہ اختیار کر جائیں تو اس سے نہ تو بیرونی دنیا میں کوئی اچھا امیج پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی عوام ایسے دوروں سے خوش ہوتے ہیں۔ ماضی اور آج کے حکمران اب تک تو شاہانہ اخراجات کے ساتھ ہی دورے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ماضی قریب میں سابق صدر پرویز مشرف سب سے زیادہ بیرونی سفر کرنے والے سربراہ کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔ ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی ساڑھے تین سال میں دوروں کی سنچری مکمل کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تو غیر ملکی دوروں کے نقطہ نظر سے کافی معروف رہا۔ صرف پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کے صدر اور وزرائے اعظم نے ملکی خزانے کے پانچ ارب روپے ڈبو کر ایک سو اڑتالیس دورے کیے۔ ان دوروں کیلئے ہر بار ساتھ رہنے والا ایک بڑا طیارہ، اس کا درجنوں افراد کا عملہ، ساتھ جانے والے درجنوں افراد کا وفد، ان سب کا دوسرے ملکوں میں اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام، بھاری سفری الائونس اور سیر سپاٹا قومی خزانے اور پاکستانی سفارت خانوں کے خرچے سے ہوتا رہا۔
Yousaf Raza Gilani
سابق وزیراعظم گیلانی ایک دفعہ اتنا بڑا وفد لے کر یورپ گئے کہ میزبانوں نے انہیں سرکاری طور پرٹھہرانے سے صاف انکار کر دیا۔ راجہ پرویز اشرف نے بھی اپنی مختصر مدت میں بیرونی دوروں کاتمغہ اپنے سینے پر سجایا۔ وہ اپنے دورۂ لندن کے دوران کروڑوں روپے سے اعلیٰ پرتعیش ہوٹلوں میں قیام اور بیٹے بہو سمیت دیگر رشتہ داروں کے ساتھ شاپنگ بھی کرتے رہے۔ وسطی لندن کے نائٹس برج کے علاقے میں قائم فائیو اسٹار ہوٹل برکلے میں چار روزہ قیام کیلئے انہوں نے اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے لیے چھبیس کمرے بک کرائے، جن کا مجموعی خرچہ چونسٹھ ہزار پائونڈ بتایا جاتا ہے۔ میاں صاحب کا ماضی اور حال بھی غیر ملکی دوروں کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کر چکا ہے۔
اب کی بار بھی میاں صاحب جب سے اقتدار میں آئے ہیں طوفانی رفتار سے دُنیا بھر کے دورے کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی تنازعات کو بھی اپنے ویژن کے مطابق حل کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار کے صرف ڈیڑھ سال میں ڈیڑھ درجن کے قریب سرکاری و نجی غیر ملکی دورے کیے۔ جون میں عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ مہینہ بھر ملک میں رہے لیکن جولائی کے آتے ہی ان کے غیر ملکی دوروں کا آغاز ہو گیا۔ جولائی 2013 ئٔ کے پہلے ہفتے انہوں نے چین کا پانچ روزہ دورۂ کیا۔ اگلے مہینے رمضان میں وزیراعظم عمرہ کی غرض سے چھ روزہ نجی دورے پر سعودی عرب چلے گئے۔ سولہ ستمبر 2013ء کو وہ تین روزہ دورۂ پر ترکی روانہ ہو گئے۔
وہاں سے واپس آئے تو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے لندن سے ہوتے ہوئے امریکا نکل پڑے۔ اس دورۂ میں ہی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کا انتظام ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور 19 اکتوبر کو میاں صاحب نے دوبارہ امریکا کیلئے اُڑان بھری۔ وہ ایک ہفتہ تک امریکا کی ”سرکاری سیر” کے بعد فقط دو روز کے لیے وطن واپس تشریف لائے اور پھر برطانیہ کی سیر کو نکل گئے۔ تین نومبر 2013ء کو وہ برطانیہ سے واپس تشریف لائے تو اگلے مرحلے میں پندرہ سے سترہ نومبر 2013ء تک سری لنکا اور پھر اٹھارہ سے بیس نومبر 2013ء تک تھائی لینڈ کے سرکاری دورے پر نکل پڑے۔ وہاں سے واپس آئے تو 28 نومبر 2013ء کو ایک روزہ دورۂ پر افغانستان روانہ ہو گئے۔
جنوری 2014ء میں میاں صاحب کا سوئٹزرلینڈ کا دورۂ طے تھا مگر وہ بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔ اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی وزیراعظم نوازشریف 12فروری 2014ء کو تین روزہ دورے پر ترکی روانہ ہو گئے۔ پھر مہینہ بھر ملک میں رہے اور 29اپریل 2014ء کو تین روزہ سرکاری دورے پر برطانیہ پرواز کر گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو 11سے 13مئی 2014ء تک ایران کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ مئی 2013ء میں عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد سے مئی 2014ء تک وزیراعظم صاحب نے چھبیس کروڑ روپے میں 14 غیر ملکی دورے کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔
وزیراعظم نواز شریف 26 مئی 2014ء کو نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے بھارت روانہ ہوئے اور واپس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ 17 سے 18 جون 2014 ء کو تاجکستان کا دورۂ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 20 جولائی کو وزیراعظم صاحب عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ ہوئے اور واپس آئے تو ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے نیویارک کی اُڑان بھری۔ 7 نومبر 2014ء کو وہ چین کے تین روزہ سرکاری دورۂ پر روانہ ہوئے
وہاں سے واپس آتے ہی دو روزہ دورۂ پر جرمنی کوچ کر گئے اور پھر وہاں سے ہی برطانیہ کا دورۂ شروع ہوا۔بجلی و گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، ڈرون حملوں ،فسادات اور دہشت گردی کی ماری عوام کے پُرزور اسرار پر وزیراعظم صاحب اپنا جرمنی اور اور برطانیہ کا دورۂ مکمل کرکے پاکستان کے دورۂ پر تشریف لا چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے مرحلے میں انہوں نے نیپال کیلئے بیگ تیار کر رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کا حالیہ ”دورۂ پاکستان” کتنے دنوں پر مشتمل ہوگا۔