عمران خان صاحب ایک اچھے متظم ہیں۔جس کا لوہا وہ لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا کر اور چلا کر منوا بھی چکے ہیں۔ سیاست کی بھول بھلیوں میں بھی بھٹو صاحب کے طرز سیاست پر عمل کر کے پچھلے انتخاب میں٠ ٧ لاکھ ووٹ لیکر قومی اسمبلی میں ٣٤ سیٹوں کے ساتھ پہنچے اور خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی سے مل کر حکومت بھی بنائی مگر بھٹو صاحب جیسی سیاست پرپوری طرح عمل نہ کر پائے۔ان کی اُٹھان پر ان کے لوگ بہت خوش ہو ئے تھے۔ اب بھی ان کے جلسوں میں لوگوں کی بھاری تعداد شامل ہو رہی ہے صرف دھرنے میں لوگ اب کم شریک ہو رہے ہیں وہ اس وجہ سے کہ خان صاحب نے سیاست کی بھول بھلیوں میں اُلج کراپنا گراف نیچے کر لیا۔سب سے پہلے دھرنے کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنے میں سمجھداری کا ثبوت نہ دیا جو ہمیشہ شارٹ کٹ ہوتا ہے یعنی پانچ نکات حاصل کر کے چھٹے نکتے کی کوشش کرتے اب سب کے سب گم نکات ہو گئے
حکومت کا پلہ بھاری ہو گیا ہے ۔ شروع میں کہا کہ دس لاکھ افراد کو اسلام آباد میں جمع کریں گے مگر ٹارگٹ کے قریب بھی نہ پہنچ سکے جس پر مخالفوں نے خوب پروپیگنڈا کیا۔ اُ س کے بعد اپنے ایک ساتھی کو ناراض کربیٹھے گو کہ اس میں شاہ محمودد قریشی صاحب اور باغی جو اب داغی مشہور کردیے گئے ہیں پارٹی کے دو سینئر عہداروں کی ذاتی کشمکش کا بھی دخل ہے مگر ایسے موقعوں میں مرکزی لیڈر شپ کا کام ہوتا ہے کہ سب کو ملا کر اور سب کا نکتہ نظر سن کر پارٹی سے وفادار ی دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس میں خان صاحب کامیاب نہ ہو سکے اور باغی داغی صاحب نے ناراض ہو کر ایک سازش کا انکشاف کیا اور وہ ریکارڈ لگایا کہ ان کی پارٹی کو فوج کی بی ٹیم سمجھا جانے لگا جس سے پارٹی کو نقصان پہنچا۔
ٹینوکریٹ حکومت کی بات کر کے بھی ناسمجھی کا ثبوت دیا۔خان صاحب نے قومی اسمبلی کے جن لوگوں سے استفےٰ لیے وہ بھی قانون کے مطابق سپیکر کے سامنے الگ الگ پیش نہ کئے جس سے یہ سیاسی چال بھی کامیاب نہ ہو سکی۔٤ ٣ میں سے اجتماعی طور پر طرف ٢٢ پیش ہوئے ان میں بھی ایک نے اسیپیکر سے رابطہ کر کے اپنا استفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کر دی۔ اب تو ان کی اکثریت نے نشستیں برقرار رکھنے کی خاطر اپنی جائیداد اور آمدنی کے گوشوارے بھی جمع کر ڈالے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ممبران اپنی سیٹیں برقرا ر رکھنا چاہتے ہیں اور خان صاحب کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ عوام کو واپڈا کے بل نہ دینے کا کہہ کر بھی قانونی غلطی کی گئی جس پر کسی نے بھی کان نہ دھرہ۔ بلکہ خود اپنا بھی کنکشن کٹوا بیٹھے جہاں تک کہ تحریک انصاف کے پختونخواہ کے وزیر اعلی نے بھی عمل نہ کر کے پارٹی پالیسی کو نقصان پہنچایا۔ایک ساتھ مرنے والے انقلابی اورچو چٹکی میں عوام کو انقلاب کی نوید سنانے والے نے بھی ساتھ چھوڑ دیا جس سے کارکنوں پر نفسیاتی اثر پڑا ۔
چوٹکی والے انقلابی صاحب نے پہلے ہی خان صاحب سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے کارکنان تھک گئے ہیں انہوں نے نوکریوں پر جانا ہے اس لیے ہم دھرنا ختم کر نے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی سوجھ بوجھ ہوتی تو اس وقت کوئی بھی سیاسی بہانہ بنا کر فیس سیونگ کی جا سکتی تھی مگر اس میں بھی کوتاہی ہو گئی۔ تین ماہ سے روزانہ قسمیں کھا کھا کر عوام کو تسلی دی جاتی رہی کہ نوازشریف صاحب کے استفیٰ کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ اب سرد موسم نے گرما گرمی تقریباّ ختم کردی ۔خان صاحب سنجیدگی سے دھرنا ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا کمیشن بنا دیا جائے تو دھرنا ختم کر دوں گا جبکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ سب پارٹیاں ملک میں سیاسی نظام کو چلنے دیں اور قانون کے مطابق الیکشن ٹریبنلز سے رابطہ کریں اس میں بھی ان کی ہار ہے۔ ٹی وی چینل نے بھی اب دھرنے کی کوریج کم کر دی ہے۔
جس امیر جماعت اسلامی اور سیاسی جرگے کے قائد جو خلوص دل سے صلح صفائی کی کوششیں کر رہے تھے کو چند دن پہلے ڈبل وکٹ پر کھیلنے کا طعنہ دے رہے تھے ان ہی کا دامن پکڑااور درخواست کی کہ نواز شریف صاحب کے استفیٰ سے دستبردار ہوتے ہیں اور بات چیت کا دروازہ کھولنے کے لیے تیا ر ہیں ہماری مدد کی جائے۔ ان سے ملنے خود میاں اسلم صاحب کے گھر گئے۔ نہ جانے خان صاحب نے کس بنیاد پر عسکری قیادت، ملک کی پارلیمنٹ، سب سیاست دانوں، سابق چیف جسٹس، عدلیہ کے معزز جسٹس، الیکشن کمیشن اوراپنے ہی نام زد الیکشن کمیشن کے سربراہ فخرالدین جی ابراھیم کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے بلکہ خان صاحب نے پورے پاکستان کو مخالف بنا لیا۔ عوام سوچ رہے ہیں کیا اس ملک پاکستان میں صرف اور صرف خان صاحب ہی صحیح ہیں باقی سب غلط ہیں؟انسان کو اتنا زیادہ پر اعتماد بھی نہیں ہونا چایئے کہ سب کو اپنا مخالف بنا لیا جائے۔
Nawaz Sharif
ایک دفعہ وزیر اعظم بننے کا کہہ کر بھی فاول کرچکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی کرپشن سے بھرپور تباہ کن کارکردگی نے اسے پاکستان کی سیاست میں جڑ سے اُ کھاڑ پھینکا ۔ خان صاحب کی تحریک انصاف نے دونوں پارٹیوں کی خوب مخالفت کر کے سیاست میں اپنی جگہ بنائی۔ جیتنے والی پارٹی نے بھی کوئی ڈیلورڈ نہیں کیا جس سے پاکستان کے عوام( ن) لیگ سے ناخوش ہیں اور گو نواز گو کے نعرے لگ رہے ہیں آج ہی چنیوٹ میں امداد بانٹتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو نواز گو نواز گو کے نعرے سننے پڑے۔ اس سب باتوں کے باوجود سیاست سیاست ہوتی ہے اور کرکٹ کرکٹ ہوتی ہے سیاست سنجیدگی اور کرکٹ کھیل تماشہ ہے۔ خان صاحب کرکٹ کے بادشاہ تو تھے اب سیاست کی بھول بھلیوں میں آکر پھنس گئے ہیں۔ (ن)لیگ کو اب قدرت نے موقعہ دیا ہے اس لیے سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔ اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چایئے ہے کہ عوام کو بہر حال شعور ملا ہے۔
آپ عوام کے پیسوں سے اپنے پیٹی بھائی کو ٧٠ قسم کے کھانے کھلانے سے پرہیز کریں۔ رائے ونڈ کی کی رہائش گاہ کی پولیس پر ٢٠ کروڑ سالانہ خرچ کرنا چھوڑ دیں۔ اسلام آباد سے لاہور سفر کے لیے آپ، بیٹا اور بھائی علیحدہ علیحدہ جہاز پر قوم کی خطیر رقم خرچ نہ کریں۔ اس ملک میں خیبرپختوخواہ کا سینئر وزیر پشاور سے لاہور کا سفر صرف ٣٤٥ روپے میں کرتا تو لوگ یہ فرق دیکھ رہے ہیں۔ اپنی ہی فوج سے اختلاف نہ بڑھائیں بلکہ اس کی عزت و وقار کو بڑھائیں فوج کی عزت اور وقار پاکستان کی عزت اور وقار ہے۔ جن پر قتل کا مقدمہ قائم ہے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری تو نہ ہوئے اس سے کم جرم پر لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونا اور اشتہاری مجرم بنانا سیاسی چال سمجھی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ کے بیانات کو بھی جلتی پر آگ سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستانی عوام کو معلوم ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے سیاست کو عبادت کی جگہ کاروبار بنا لیا ہے۔ الیکشن پر کروڑ لگاتے ہیں اسمبلی کے ممبر بن کر اربوں کماتے ہیں۔دہشت پیدا کر کے سیٹیں جیتتے ہیں۔وعدے کر کے واپس اپنے حلقوں کے عوام کے پاس جاتے تک نہیں۔ مورثی پارٹیاں بنائی ہوئی ہیں۔ ن لیگ نے ٢٦ رشتہ دار مختلف عہدوں پر لگا دیے ہیں۔ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز صاحبہ نے کل ہی اپنے عہدے سے استفیٰ دیا۔ ووٹر لسٹوں میں خرابی ہے۔ حلقہ بندیاں صحیح نہیں ہیں۔اگر ن لیگ نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دھرنوں سے کچھ نہ ہوا تو اس کی خام خیالی ہے۔پوری پاکستانی قوم جاگ چکی ہے ۔ اس لیے ہماری رائے ہے کہ تحریک انصاف کو واپس عزت سے اسمبلی میں لا کر ان سے پانچ طے شدہ نکات پر بات چیت کی جائے۔
تمام خرابیوں کو ملکی قانون کے مطابق درست کیا جائے ورنہ عوام کا پیمانہ پھر لبریز ہو جائے گا اور ملک کو نقصان پہنچے گا۔ انقلابی دھرنے والوں کے مقتولوں کے رشتہ داروں سے اگر کوئی ڈھیل نہیں ہوئی توکسی نہ کسی طرح دیت دے کر راضی کیا جائے۔ اس سے ہی سیاست میں سے ٹینشن دور ہو سکتی ہے ۔ہمارے دشمن ہمارے ملک میں امن و آمان دیکھنا نہیں چاہتے ۔ہمیں الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں اور جاری گریٹ گیم کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہماری فوج کو اپنے ہی عوام سے لڑا دیا گیا۔ اس سے عوام میں دوریاں بڑھ رہی ہیں ان دوریوں کو سیاست دان مل بیٹھ کر حل کریں۔ امیر جماعت اسلامی کی سربراہی میںسیاسی جرگے کی سفارشات پر عمل کرکے ملک کو اس افراتفری سے بچایا جا سکتا ہے اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو آمین۔