بھارتی فوج نے کو لگام کے علاقہ فرصل یاری پورہ کے ایک نزدیکی گائوں میں ایک جھڑپ کے دوران دو کشمیریوں کی شہادت کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس جھڑپ میں دو بھارتی فوجی اور ایک سی آر پی ایف اہلکارزخمی ہوا ہے۔ جونہی اس جھڑپ میں دو کشمیریوں کی شہادت کی خبر پھیلی ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور شہید کشمیریوں کی لاشوں کا مطالبہ کر دیا جس پربھارتی فورسز نے مظاہرین پر گولیاں برسا دیں جس سے ایک مزید کشمیری شہید او رمتعدد زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد سے جمعہ کی رات تک جگہ جگہ بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔ مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجہ میں شہید نوجوان کا نام طارق احمد بتایا جاتا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریند ر مودی 20 نومبر جمعرات کو مقبوضہ کشمیر کے دورہ پر آرہے ہیں
جس پر حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے پورے کشمیر میں ہڑتال کی کال دی ہے اور حالیہ الیکشن کو طاقت، تشدد اور ظلم کی بنیاد پر عمل میں لانے کو سرکاری دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور پولیس نے وسیع پیمانے پر چھاپوں اور گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ،یہ پْرامن شہریوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ استعماری حربے جموں کشمیر کے عوام کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کے لئے ہیں، اسی لیے یہاں کے عوام خاص طور جوانوں کو کچلا جارہا ہے۔
فورسز کی طرف سے اس طرح کا ظالمانہ برتائوکشمیری عوام کی بدترین تذلیل ہے جس کے خلاف احتجاج کرنا لازمی ہے۔ بھارتی فورسز نے چھاپوںکا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کئی کشمیریوں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ حریت پسند کشمیری قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خاں و دیگر نے بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے کشمیری شہداء کے لواقین سے اظہار یکجہتی کیا ہے اور فورسز کی اس مذموم حرکت کو کھلی دہشت گردی قرا ر دیا ہے۔2010ء میں مڑھل فرضی انکاؤنٹر میں جاں بحق کئے گئے تین کشمیری نوجوانوں کے قتل کے الزام میں ایک فوجی عدالت نے دو افسران سمیت سات فوجی اہلکاروں کو قصور وار قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
یہ واقعہ چار سال قبل 2010ء میں لائن آف کنٹرول کے قریب مڑھل نامی گاؤں میں پیش آیا تھا۔ بریگیڈیئر دیپک مہرا کی سربراہی میں عدالت نے ملزمان کا کورٹ مارشل اس سال جنوری میں شروع کیا اور ستمبر میں تفتیش مکمل ہوگئی تھی، فرضی مقابلے میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کی تصدیق کا انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب تین نومبر کی شب فوج کے ہاتھوں مارے گئے دو نوجوانوں کی ہلاکت کا معاملہ ابھی زیرِ تفتیش ہے۔ کمانڈنگ افسر کرنل ڈی کے پٹھانیہ، کپتان اوپیندر سنگھ، صوبیدار ستبیر سنگھ، حوالدار بیر سنگھ، سپاہی چھادرا بن، سپاہی ناگیندرا سنگھ اور سپاہی نریندر سنگھ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ مڑھل میں فرضی جھڑپ 30 اپریل 2010ء کو بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی کشمیر کے مڑھل سیکٹر میں تین پاکستانی مجاہدین کو جھڑپ کے دوران شہید کیا گیا ہے۔
لیکن بعد میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت بارہمولہ کے محمد شفیع، شہزاد احمد اور ریاض احمد کی حیثیت سے ہوئی تھی جو مقامی مزدور تھے۔ اس پورے معاملہ میں دو کشمیریوں بشیر احمد اور عبدالحمید کو بھی ملزم بنایا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اچھی مزدوری کا لالچ دے کر مقتولین کو فوجی کیمپ میں پہنچایا جہاں سے انھیں کپواڑہ کے مڑھل سیکٹر لے جا کر فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا۔جس علاقے میں یہ جھڑپ ہوئی تھی وہ برف سے ڈھکا ہوا ہے اورلائن آف کنٹرول کے نزدیک ہے۔ تینوں نوجوانوں کی لاشوں پرگرم کپڑے موجود نہیں تھے بلکہ ایک نے کالے رنگ کا قمیض پاجامہ ،دوسرے نے چک خان ڈریس اور تیسرے نے آسمانی رنگ کا خان ڈریس پہنا ہوا تھا۔ پولیس کو یہ بھی شبہ ہے کہ اس برف پوش علاقے میں محض قمیض پاجامہ پہہنے اتنی سردی میں کوئی موجود نہیں رہ سکتا ہے اور یہ کہ مقتول کشمیری نوجوانوںکی داڑھی تراشی ہوئی تھی اور ایک پولیس آفیسر کے مطابق جیسے چہرے پر تازہ تازہ تھریڈنگ کی گئی تھی۔
Indian Army
حالانکہ اس علاقے میں کسی نائی کاموجود ہونا دور کی بات ہے۔ بعد میں کلاروس پولیس نے ان تینوں لاشوں کو یکم مئی کو مقامی اوقاف کمیٹی کے حوالے کیا جسکے بعد اْنہیں سپردِ خاک کیا گیا۔ جموں کشمیر پولیس نے 15 جولائی 2010ء کو ہی آٹھ فوجی اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا اور اس کیس کی سماعت سوپور کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ہوئی۔ تاہم کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ یا افسپا کی وجہ سے قصوروار فوجی یا نیم فوجی اہلکاروں کا مواخذہ عام عدالت میں نہیں ہوسکتا، اس لیے ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔ مقامی نوجوانوں کی شہادتوں پر وادی بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے
اور چھ ماہ تک ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں، گرفتاریوں اور پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ اس پوری تحریک میں مظاہروں کے دوران پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی براہِ راست فائرنگ سے 125 نوجوان مارے گئے تھے۔ مڑھل فرضی انکاونٹر میں ملوث فوجی اہلکاروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس جعلی انکاونٹر میں جان بحق ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ نے اسے انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دیا ہے۔جعلی انکاونٹرمیں جان بحق ہوئے ریاض احمد لون ، محمد شفیع اور شہزاد احمد خان کے لواحقین نے جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے اہلکاروں کوسزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا دینے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ریاض احمد کے بھائی فردوس احمد کہتے ہیں کہ وہ پچھلے چار برس سے انصاف کیلئے در در بھٹک رہے ہیں
تاہم اب فیصلہ آنے سے ان کو نا امیدی ہوئی ہے۔ ریاض کی ماں نسیمہ بیگم بھی اپنے بیٹے کے قاتلوں کی موت چاہتی ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ ان کو مجرم تو قرار دیا جاتا ہے تاہم’ سزائے موت نہیں دی جاتی’ شہزاد احمد کی اہلیہ جبینہ بیگم کے مطابق اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ اس کے شوہر اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے تاہم اگر مجرمین کو سزائے موت ملتی تو کچھ تو راحت مہیا ہوتی۔تینوں کنبے جان بحق نوجوانوں کولالچ دیکر پھنسانے والے بشیر احمد لون کیلئے بھی سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شفیع کی ماں کے زاہدہ مطابق بشیر ایک خطرناک آدمی ہے اور اس کی گرفتاری کے بعد سے ہی اس کے اہل خانہ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس کو بھی موت کی سزا ملنی چاہئے کیونکہ وہی ان تین نوجوانوں کی موت کا اصل ذمہ دار ہے۔حریت پسند کشمیری جماعتوںنے فوجی عدالت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سات بھارتی فوجیوں کو عمر قید کی سزا کی سفارشات کو الیکشن ڈرامہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلہ پر بھارت نواز تنظیموں کا خوشی کا اظہار کرنا حیران کن اور شرمناک ہے۔
جموں کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ ، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اورنعیم احمد خاں نے کہا کہ مژھل فرضی جھڑپ کیس میں ملوث بھارتی فوجیوں کے خلاف اگر 2010ء میں عوامی مطالبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جاتیں تو جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران 125 کشمیری شہید نہ ہوتے مگر افسوس کہ بھارتی فوج اور ریاستی انتظامیہ نے مجرم فوجیوںکی پشت پناہی کی اور دہلی سرکار کو خوش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ فوجی عدالت کی سفارشات الیکن اسٹنٹ ہیں۔ جو بھارت نواز تنظیمیں ان سفارشات پر واہ واہ کر رہی ہیں انہیں چھٹی سنگھ پورہ، بیجبہاڑہ، آسیہ نیلو فر کیس، گائو کدل اور دیگر واقعات کیوں یاد نہیں ہیں اور ان واقعات میںملوث بھارتی فوجیوں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ کشمیری قائدین نے کشمیری عوام سے ایک بار پھر نام نہاد الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔