میانمار روہنگیا مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک ختم کرے : اوبامہ

Obama

Obama

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر باراک اوباما نے میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پرزور انداز میں مسلم اقلیت کو مساوی حقوق دینے کی بات کی۔ 11 لاکھ روہنگیا مسلمان اراکان ریاست میں نسلی تشدد کا شکار ہیں۔ 2012 میں بدھوﺅں کے ساتھ تصادم کے بعد ہجرت پر مجبور ایک لاکھ 40 ہزار مسلمان اب تک کیمپوں میں موجود ہیں۔

ایک علاقائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا روہنگیا یا کسی دوسری اقلیت کیخلاف امتیاز ایسے ملک کا منظر پیش نہیں کرتا جیسا برما بننا چاہتا تھا۔ وہ ینگون میں ملک میں جمہوریت لانے کی کوشش کرنے پر 1991ءمیں نوبل امن پرائز حاصل کرنیوالی سوچی کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔

اس موقع پر سوچی نے قوم کو ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے متعلق سیکھنے کی ترغیب دی تاہم انہوں نے مسلمانوں پر مظالم کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔ مسلمانوں پر جاری مظالم کے حوالے سے واضح مو¿قف نہ اپنانے کے حوالے سے سوچی پر شدید تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کہا میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کے صدر بننے پر پابندی عائد کرنا کوئی باشعور فیصلہ نہیں ہے۔

صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کو صرف اس بات پر کہ اس کے بچے کس ملک کے شہری ہیں صدر بننے سے روکنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ واضح رہے کہ میانمار کی اپوزیشن رہنما کے بیٹوں کی غیر ملکی شہرت ہونے کے باعث ان پر آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اوباما نے جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی سے جمعہ کو ملاقات کی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب میانمار (جسے برما بھی کہا جاتا ہے) میں آئندہ سال انتخابات سے قبل جمہوری اصلاحات کے لئے اس ملک پر بین الاقوامی دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے۔امریکی صدر اوباما نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک کے امیگریشن نظام میں واضح تبدیلی لانے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر اوباما بعض امریکی شہریوں کے والدین کو ملک بدر ہونے سے بچانے کے پروگرام کی مدت میں اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

امیگریشن کے نظام میں اصلاحات کرنے سے مجموعی طور پر امریکہ میں بغیر قانونی دستاویزات کے رہائش پذیر 50 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تجویز کردہ پالیسی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کون کتنے عرصے سے امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر انتظامیہ منصوبے کو 10 سال سے امریکہ میں رہائش پذیر افراد تک محدود کرتی ہے تو اس صورت میں 25 لاکھ افراد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ حزب اختلاف کی ریپبلکن پارٹی نے اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدام صدر اوباما کے اختیارات سے باہر ہونے چاہئیں۔ سینیٹر جیف سیزنز نے کہا کہ مجوزہ اقدامات سے ملک کی عملداری کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

اپوزیشن کے علاوہ صدر اوباما کو اپنی جماعت کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے سینئر سینیٹر ہیری ریڈ نے صدر اوباما پر زور دیا ہے کہ 11 دسمبر کو کانگریس سے حکومتی بجٹ کی منظوری کے بعد ہی وہ یہ قدم اٹھائیں۔ بی بیسی کے مطابق اوباما نے اس معاملے میں کانگریس پر کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ رواں برس میں ہی اس بارے میں فیصلہ کر لیں گے۔

تاہم امریکہ میں حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے ارکان کانگریس کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا صدر کے اختیار میں نہیں ہے۔ جمعہ کو رنگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران اوباما نے کہا کہ انہوں نے ایوان نمائندگان کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ دیا کہ وہ امیگریشن کے معاملے پر قانون سازی کریں لیکن ارکان ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

میں کہہ چکا ہوں کہ اگر کانگریس اس بارے میں کام نہیں کرتی تو میں نظام کی بہتری کیلئے اپنے تمام قانونی اختیارات استعمال کروں گا اور یہ اب اس سال کے خاتمے سے پہلے ہو گا۔ جیسے ہی کانگریس اس سلسلے میں قانون سازی کرے گی تو وہ قانون ان کے احکامات کی جگہ لے لے گا۔ صدر اوباما نے موسمی تبدیلی سے بچاو کے حوالے سے قائم انٹرنیشنل گرین فنڈ کیلئے 3 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

امریکی انتظامیہ کے مطابق صدر اوباما آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے جی 20 ممالک کے اجلاس میں گرین فنڈ کے حوالے سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔