نیویارک (جیوڈیسک) امریکا میں جرائم کی روک تھام کے لیے 40 سے زائد وفاقی ایجنسیوں نے اپنی خفیہ کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ امریکا میں وفاقی حکومت کی جانب سے جرائم کی روک تھام کے لیے خفیہ کارروائیوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔
چالیس سے زائد وفاقی ایجنسیوں کے خفیہ اہلکار بزنس مین، ڈاکٹر، وزرا، سیاسی مظاہرین، طلبا،وکلا، اور سماجی کارکنوں کے روپ دھار کر خفیہ کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، شناخت کی چوری سمیت مختلف روایتی مجرمانہ سرگرمیوں کا سدباب کرنا ہے۔
سپریم کورٹ سمیت مختلف مقامات پر ہونے والے مظاہروں میں کئی وفاقی ایجنٹس طلبا کا روپ دھار کر مظاہرین میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جس کا مقصد مظاہرین کی کسی بھی مشتبہ سرگرمی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔انٹرنیٹ ریونیو سروس میں درجنوں خفیہ اہلکار منشیات فروش یا اکاؤنٹنٹ کا روپ دھار کر ٹیکس چوروں کا پتا لگاتے ہیں۔
بعض اداروں کے حکام کا خیال ہے کہ خفیہ آپریشنز کے ذریعے شواہد اکٹھے کرنے میں زیادہ مدد ملتی ہے جو دوسری صورت میں قانون کے وضع کردہ عام طریقوں سے نہیں ملتی۔خفیہ کارروائیوں میں پیسوں کا خرد برد ،تحقیقات میں سمجھوتہ کرنے ، اور ایجنٹس کے کئی ماہ تک لاپتہ رہنے جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔
ایف بی آئی کے ایک خفیہ ایجنٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جرائم میں شامل ہونے یا دھوکہ دہی کے طریقوں کو صرف اس وقت جائز قرار دیا جاسکتا ہے جب ان کا استعمال سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے ہو۔سن 2007 میں ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے خبر رساں ایجنسی کے اہلکار کا روپ دھار کر بم حملوں کی دھمکیوں کا کھوج لگایا۔
اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ایف بی آئی کے ڈائریکٹر James B. Comey نے نیویارک ٹائمز کو ایک خط میں بتایا کہ ہر خفیہ آپریشن میں فریب دیا جاتا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے دور میں خفیہ آپریشن کا سب سے بڑا سکینڈل سن 2011 میں سامنے آیا جب ایجنسیوں نے ایک خفیہ آپریشن کے دوران ہتھیاروں کو میکسیکو میں اسمگل ہونے کی اجازت دی اس مشن کا نام ” فاسٹ اینڈ دا فیوریس “رکھا گیا تھا۔