اوئے بے غیرت دے پتر اج فیر کپ توڑ دتا۔ تراخ سے تھپڑ ماجو کے منہ پر پڑا، کنے دناں توں تیرا منہ دیکھ رہا ہوں ، توں نے کنے کپ،پلیٹیں توڑ دیں، یہ تمام پیسے تیری تنخواہ سے کاٹوں گا تو تمہیں سمجھ لگ جائے گی، ہوٹل مالک کی اس بات نے 13 سالہ ماجد عرف ماجو کو سوچوں کے بھیانک گڑھے میں پھینک دیا اور کانوں میں اپنی ماں کی 6 دنوں سے جاری تکرار گونجنے لگی اس کی چھوٹی بہن چھ سات دن سے بخار میں پھنک رہی تھی اماں روز ہی کہہ دیتی کہ ماجو کی تنخواہ ملتی ہے تو دوائی لائوں گی اور پھر محلے کے دکاندار کی باتیں دماغ میں ہتھوڑے برسانے لگی جس سے روزانہ آٹا گھی، دودھ، چینی وغیرہ ادھار لیا جاتا اور وعدہ ہوتا کہ یونہی ماجو کی تنخواہ ملے گی آپ کو پیسے مل جائیں گے ماجو کا تعلق بھی پاکستان کی اس مخلوق سے تھا ایسے افراد جو خط غربت کے نیچے پیدا ہوتے ہیں
اور اس کے نیچے ہی مر جاتے ہیں سنا ہے ان کی تعداد پاکستان میں 50 فیصد ہے یہ ایسے پاکستانی ہیں جو قرض ،خیرات سے پیدائش سے موت تک کا سفر طے کرتے ہیں ۔اپنی بیمار چھوٹی بہن کے خیالوں میں غرق ماجو کو زناٹے کے ساتھ دوسرا تھپڑ اس کو اصل دنیا میں واپس لے آتا ہے جہاں پر ہوٹل مالک کی گالیاں، گاہکوں کی بے ہودہ باتوں ، غلط حرکتوں کا سامنا ، کسی نے گالی دی تو کسی نے پست پر دھپ جما دی، ماجو کی کل معاشی طاقت مہینہ بھر کی کمائی جو اس کی محنت اور تذلیل کروانے پر ملتی 1500 روپے پر مشتمل ہے ۔
جسے اس نے گھر کے حالات کا بوجھ اپنے معصوم مگر مضبوط کاندھوں پر سنبھال رکھا ہے ماجو اپنے گائوں سے شہر میں ایک ہوٹل پر صبح ساڑھے 7بجے آتا ہے واپسی رات آٹھ نو بجے تمام برتنوں اور ہوٹل کی صفائی کر کے ہونی ہوتی ہے ،چائلڈ لیبر پر بڑی بڑی باتوں کرنے والوں کو نہ ہی کل یہ وجوہات نظر آتی تھیں نہ آج آتی ہیںہاں یہ بچوں کے عالمی دن منا سکتے ہیں اس پر بڑی بڑی تقاریر کر سکتے ہیں حقیقت میں ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں “ماجو” بالا”چھوٹے”چھیدا”کاکا”نظر آئیں گے جن کی کائنات گھر کی دہلیز سے شروع ہوتی ہے ہوٹلوں، ورکشاپوں، منی سینمائوں، دکانوں اور لوازمات کے مرکز کے گرد گھومتی ہے۔، میری دھرتی کے یہ پھول اس خمیر سے پیدا ہوتے ہیں کہ ساری زندگی سسک سسک کر جیتے مرتے اور اسی مٹی کی آغوش میں سو جاتے ہیں
اسی طرح جب بچوں کے حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر ہمارے ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی تصاویر ایک خوبصورت بچے کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتی ہیں ہمارے حکمرانوں (دوسروں)کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس ملک کے اندر لاکھوں چھیدے، بالے، چھوٹے اور کاکے کی بھی تقدیر کا قلم ان ہی کے ہاتھ میں ہے اور بچوں کے لئے بچوں کے عالمی دن کے موقعے پر ان کے حقوق کے لئے چائلڈ لیبر پالیسیاں بنا دینا یامحض دکھاوے کے لئے تقریبات منعقد کر کے فارمیلٹی پوری کر دینا اور کہہ دینا کے غربت ختم ہو گئی ہے ،سب اچھا نظر آنا ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دن ان سے اس کا حساب لیا جائے گا۔
World Childrens Day
ایسے لاکھوں بچے دن رات سخت سردی یا پھر گرمی میں ننگے پائوں اپنی تقدیر کی چکی میں پستے ہیں ۔تھر میں قحط کابھوت ناچ رہا ہے بھوک ،پیاس سے ،ٹرپ،ٹرپ کر وہاں معصوم مر رہے ہیں اور روز ان کی تعداد میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے ۔لیکن ہمارے صاحب اقتدار اور برسوں سے وہاں حکومت کرنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے ۔، تقدیر کے چکر کے پیچھے ننگے پائوں بھاگنا ان کا مقدر ہے۔ اس دھرتی کے یہ معصوم پھول زمانے سے سہولتیں نہیں مانگتے صرف جینے کا حق مانگتے ہیں۔، تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے ،بیمار اقارب کی دوائی یا پھر گھر کا راشن ہی ان کی زندگی کا ماٹو ہے۔اس مرتبہ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر کاش ایسا ہو جائے کہ کوئی مسیحا آئے جو ان کی زندگیوں میں خوشیاں اور خوشحالی لائے۔۔۔۔۔روشنی لائے۔۔۔۔۔علم کی روشنی۔۔۔۔عمل کی روشنی۔۔۔۔محبت کی روشنی۔۔۔اور سب سے بڑھ کر پیٹ بھر کر روٹی ۔ان کے لیے کپڑے اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت مل جائے ۔۔۔صرف باتیں نہ ہوں اس سال کاش ایسا ہو جائے ۔۔۔
تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے، بچے پھول کی طرح نازک ہوتے ہیں، ان کو مرجھانے سے بچانا ہو گا۔ ہمیں ان کو یہ حق ہر حال میں دینا ہو گا۔ بچوں کا عالمی دن ۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں ان کو مرجھانے سے قبل چائلڈ لیبر سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کیا جائے سب سے پہلے وجہ دور کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔
حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کانفرنس بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور جبری مشقت کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔۔بچوں کے حقوق کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ چند دن پہلے نا جانے کس نے شوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی کہ سردیاں آگئیں ہیں ہم کو چاہیے کہ دوران سفر اپنے پاس کوئی ایک فالتو چادر،کوٹ ،جرسی ،سویٹر یا گرم سوٹ وغیرہ رکھیں اور جو اس کا مستحق نظر آئے اسے گفٹ کر دیں ۔۔۔۔اور کاش ایسا ہو جائے!