عید کی آمد آمد تھی لوگ تیاریوں میں مصروف تھے ایک نامی سیاستدان جو پارٹیاں بدلنے میں خاصے مشہور تھے ان کے کچھ ملاقاتی ملنے آئے تو وہ بات بے بات پر سیخ پا ہونے لگے ایک بے تکلف دوست نے پوچھ ہی لیا۔۔جناب!کیا بات ہے؟ آج روزہ زیادہ محسوس ہورہا ہے نہیں یار سیاستدان نے ترت جواب دیا بے شرمی کی انتہا ہوگئی ہے آخرہوا کیا ہے ؟ بتائو تو سہی دوست نے استفسار کیا ”ہونا کیا ہے؟ سیاستدان نے جواباً کہا کسی نے لوٹے کی شکل کا عید کارڈ بھیج دیا ہے۔۔۔یہ بات ہے تو ایسی ہی ۔۔کہ اپنے مفادات کیلئے پارٹیاں بدلنے کو فیشن سمجھنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔لیکن پاکستان میں نظریاتی سیاست دم توڑرہی ہے جن کے نزدیک سیاست کا کچھ معیار ہے۔۔
یا جو وفاداریاں بدلنے کو گناہ سمجھتے ہیں آج وہ سیاسی میدان سے آئوٹ ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں اور ان کا کوئی حال بھی پو چھنے کو تیار نہیں اور مفاد پرست ہیں کہ کل تک جن کو گالیاں نکالتے تھے بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد دیکھئے کہ وہی لیڈر اقتدار میں آجائیں تو ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔۔۔ اور اس طرح نظریاتی کارکن منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور بڑے بڑے عہدے، وزارتیں اور مالی فائدے ان کے مخالفین کو میسر آجاتے ہیں یعنی منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
میاں نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے فلور کراسنگ کی قانون سازی کی یہ ان کااصولی مؤ قف تھا کہ ارکان ِ اسمبلی کو اپنی جماعت کا پابند ہونا چاہیے سیاست میں وفاداری سے جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہوگی لیکن ”کاریگروں” نے اس کا بھی حل نکال لیاجس سے ”فارورڈ بلاک ”کی سیاست نے جنم لیا۔میاں نواز شریف کی سوچ اچھی تھی لیکن بد قسمتی سے وہ خود اس پرقائم نہ رہ سکے یہی حشر پیپلز پارٹی نے اپنے جیالوں کے ساتھ کیا اور یہی حال عمران خان نے بھی خود اپنے اصولوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ بھٹو کیلئے خود سوزی کرنے اورقربانیاں دینے والے جیالوں نے پیپلز پارٹی کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا
بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ جیالوںنے پیپلز پارٹی کو اپنا عقیدہ بنا لیا تھا جب پارٹی نے کارکنوں کیلئے کچھ نہ کیا تو وہ اپنے لیڈروں کو ان کے حال پر چھوڑ کر سیاست سے لاتعلق ہوگئے ممتاز بھٹو، غلام مصطفےٰ کھر،ناہید خان، صفدر عباسی، آفتاب شیرپائو اور کئی قد آور پیپلزپارٹی کے سابقہ لیڈر کدھرگئے؟ اب پیپلز پارٹی جہاں کھڑی ہے کسی سے کوئی بات پوشیدہ نہیں یہ سب جانتے ہیں آج پیپلز پارٹی کی کیا حالت ہے اسے الیکشن میں امیدوار تک دستیاب نہیں ہیں۔
تحریک ِ انصاف نے عام انتخابات سے پہلے پارٹی الیکشن میں” اپنے لیڈر آپ چنیں”کا نعرہ لگایا عمران خان نے اعلان کیا کہ پارٹی الیکشن میں کامیاب ہونے والوں عہدیداروں کی مشاورت سے ٹکٹ دئیے جائیں گے لیکن ہوا اس کے بر عکس۔۔ PTI نے لاہور کے نو منتخب صدر عبدالعلیم خان اور جنرل سیکرٹری عبدالرشید بھٹی کو بھی ٹکٹ کااہل نہ سمجھا نتیجہ میں جنرل سیکرٹری پارٹی ہی چھوڑ کر چلتے بنے اسی طرح عزیز بھٹی ٹائون کے 150 سے زائد پارٹی عہدیداروں نے NA124 سے جمشید اقبال چیمہ کو نامزد کیا لیکن ٹکٹ ولید اقبال کو ملا اسی طرح تحریک انصاف لاہورکے جوائنٹ سیکرٹری (حال جنرل سیکرٹری) میاں محمد افتخار کو ٹکٹ دے کرواپس لے لیا گیا۔
Nawaz Sharif
انصاف یوتھ ونگ سنٹرل پنجاب کے نو منتخب صدر چوہدری عبیدالرحمن بھی نظر انداز کردئیے گئے حالانکہ پارٹی چیئر مین نے نو جوانوں کیلئے خصوصی کوٹے کا اعلان خود کیا تھا۔ میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد دوبارہ سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے فوج کا راستہ روکنے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو سے میثاقِ جمہوریت کیا لیکن اچانک محترمہ کی شہادت ہوگئی اس کے بعد پیپلزپارٹی نے وفاق اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومت بنائی خیر سگالی کے طورپر مفاہمتی پالیسی کے تحت آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو بھی متعدد وزارتیں لینے پر راضی کرلیا لہذا مسلم لیگ ن نے متعدد وفاقی وزراء نے علامتی طور پر انپے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کراس شخص سے حلف لیا جو ان کے نزدیک ڈکٹیٹر تھا اور اب مسلم لیگ ن کی حکومت اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلارہی ہے
اس وقت صرف مخدوم جاوید ہاشمی نے وزارت لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں ڈکٹیٹر سے حلف کبھی نہیں لے سکتا بعد میں مسلم لیگ ن کے وزراء وفاقی وزارتوں سے مستعفی بھی ہوگئے کیا اچھا ہوتا مسلم لیگ ن پہلے ہی دن سے اپنے اصولی مؤقف پرقائم رہتی تو کسی کو انگشت نمائی کا موقعہ نہ ملتا ۔۔ میاں نواز شریف نے خیبر پی کے اس شخص کو بھی قبول کرلیا جو آج بھی برملا کہتا ہے میاں نواز شریف میرا لیڈر ۔۔ اور جنرل مشرف میرا دوست ہے۔۔۔ ہے کوئی پو چھنے والا۔۔۔ہے کسی کے پاس اس عجیب و غریب منظق کا جواب؟
جوبات کی خداکی قسم لاجواب کی یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ ن کے کتنے ہی قربانیاں دینے والے رہنما ”نکرے”لگے ہوئے حالات بہترہونے کے منتظر ہیں ۔جاوید ہاشمی جیسے باغی ”بغاوت ” کرنے پر مجبور ہوگئے۔ غوث علی شاہ، اقبال ظفر جھگڑا،پیر صابر شاہ، سردار ذوالفقار علی کھوسہ، زعیم قادری اور نہ جانے کتنے چھوٹے بڑے لیگی رہنما حسرت ویاس کا پیکر بن کررہ گئے ہیں جبکہ مسلم لیگQ سے تعلق رکھنے والے ان گنت لوگوں کو مسلم لیگ ن نے پرانے اور نظریاتی مسلم لیگیوںپر ترجیح دیتے ہوئے حالیہ عام انتخابات میں ٹکٹ دے دئیے۔
یہی وجہ ہے کہ اب نظریاتی سیاست ختم ہورہی ہے آخر کب تلک کارکن نظریاتی سیاست کی اپنے خون سے آبیاری کرتے رہیں گے اور مفاد پرست ان کا حق کھاتے رہیں گے ۔۔۔ جب جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا شاید اسی لئے کوئی حمایت میں سڑکوں پر نہیں نکلا کہ خون دینے والے کم اور چوری کھانے والے مجنوں زیادہ تھے اس کے باوجود سیاستدان ہیں کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنا پسند نہیں کرتے۔