داتا کی نگری لاہور بیٹھ کر پورے ضلع لیہ کو مانیٹر کرتا رہتا ہوں اور ”عوامی نمائندگان” سے گاہے گاہے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے پورے پاکستان کی طرح ضلع لیہ میں بھی آئندہ الیکشن خاصے ہنگا مہ خیز اور دلچسپ ہوں گے کیونکہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی بہت سے سیاسی فگر ز پھرغریب عوام پر احسان جتلاتے ہوئے اپنی وفا داریاں تبدیل کر یں گے کیونکہ اس سے پہلے بزرگ اور باشعور سیاستدان مہر فضل حسین سمرا مسلم لیگ نون سے چھلانگ لگا کر تحریک انصاف کی تیز گام پر سوار ہو چکے ہیں گزشتہ الیکشن میں اُن کے ساتھ پی ٹی آئی کی مرکزی و صوبائی قیادت نے بہتر سلوک نہیں کیا تھا
خاص کربقول ہمارے دوست کالم نگار فاروق عالم انصاری ”چھوٹے قد ”کے اعجاز احمد چوہدری کا رویہ ٹھیک نہیں رہا کیونکہ موجودہ صوبائی صدراعجاز چوہدری کا جھکائو ”اعمال ” سے زیادہ ”مال ” کی طرف زیادہ رہااور جنوبی پنجاب میں ”داغی ” نے بھی خوب مال پانی کمایا کیونکہ ہمارے ہی حلقہ سے ایک ٹکٹ ہولڈر نے ”داغی ” سے باقاعدہ ٹکٹ براستہ ضلع صدر پی ٹی آئی لیہ خریدا جس کے چرچے اب عام ہو رہے ہیں اور اس بات کی گواہی باقاعدہ ایم پی اے مجید نیازی ”کروڑ وی” کراچی جا کر کپتان عمران خان کو بھی پیش کر چکے ہیں اور کچھ اپنا حساب کتاب بھی ”بے باک ” کرنے کے چکروں میں ہیں خیر چھوڑیے اِن باتوں کو۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہر فضل سُمرا کی اگلی منزل کیا ہے۔۔۔۔۔۔
؟اُن کے سیاسی جانشین اُبھرتے ہوئے نوجوان لیڈر مہر یاسر وسیم سُمرا کہتے ہیں کہ اب ہماری اُمیدوں کا مرکز صرف اور صرف تحریک انصاف ہی ہے کیونکہ اب اگر وہ سیاسی پلیٹ فارم تبدیل کرتے ہیں تو اُن کا سیاسی قد کاٹھ کم پڑ سکتا ہے اور اس وقت مہر فضل حسین سُمرا تحریک انصاف ضلع لیہ کے کارکنان اور عوام میں اپنے گزشتہ ورک کی بنیاد پر قابل احترام سمجھے جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب پارٹی تبدیلی کے حوالے سے اُن کی فلاسفی سماعت کی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ مہر فضل سُمرا ایک نظریاتی اور محب ِ وطن راہنما کی حیثیت سے سامنے آتے ہیںابن الوقت کی لغوی تعریف اُن پر صادر نہیں آتی ،کیونکہ ابن الوقت وہ ہوتے ہیں جو صرف اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کے لیے سوچتے رہتے ہیں کہ کس پارٹی میں رہ کر اپنی تجوری کی وسعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے
مہر فضل حسین سُمرا اس لحاظ سے” کرپشن فری ”سیاستدان ہیں جو اُن کے نظریاتی پن کو ظاہر کرتی ہے ،اُن کے سیاسی جانشین مہر یاسر سمرا بھی اب کافی اِن نظر آرہے ہیں اُن کی سوشل مصروفیات بھی بڑھتی جا رہی ہیں بہر حال ایک بات تو سو فیصد طے ہے کہ آئندہ الیکشن میں لیہ شہر سے ایم پی اے کا ٹکٹ ”داغی ” کے ساتھی سابقہ ٹکٹ ہولڈر کو کسی صورت نہیں ملے گاکیونکہ پچھلی مرتبہ ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ پر نہیں بلکہ ”بولی ” پر ہوئی تھی جس نے بولی زیادہ لگائی ٹکٹ اُسی کے حصے میں آئی ۔۔۔۔۔اب سنا ہے کہ بابر افتخار کھتران صوبائی حلقہ پر ”قسمت آزمائی ” کریں گے کیونکہ چند دنوں تک ملک نیاز جکھڑ باقاعدہ تحریک انصاف جوائن کر رہے ہیں اور 30نومبر کے جلسہ اسلام آباد میں اعلان کر رہے ہیں توپھر قومی حلقہ تو اُن کے حصہ میں جائے گا اور اگر جماعت اسلامی و تحریک انصاف کا انتخابی الائنس بنتا ہے تو صوبائی سیٹ چوہدری اصغر علی گجر کے حصہ میں جائے گی بابر بھی فارغ تو مہر بھی فارغ اور ”داغی ” کا ساتھی تو پہلے ہی فارغ ہے
اب تماشی دیکھنا ہے کہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔؟ یادرہے ہم نہ تو کسی کے مخالف اور نہ ہی کسی کے حاشیہ بردار ، اُٹھائی گیراور خوشہ چیں ، ہم دراصل اُس سوچ اور ذہنیت کے طرفدار ہو تے ہیں جو ملک و قوم کے لیے مخلصانہ جذبوں سے لیس ہو کر سوچتی ہے اور ہر اُس فکر اور نظریہ کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں جو غلام ذہنیت کی پیداوار ہوتے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر خود بھی ناچتے ہیں اور قوم کو بھی نچانے کی سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں ہم افراد کے نہیں بلکہ افراد کے ذہنوں میں پرورش پانے والی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ کے مخالف ہیں کیو نکہ ہماری دینی تعلیمات ہمیں گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت کا درس دیتی ہیں اور ایثار پیشہ وہ نہیں جو لفافہ ازم کا شکار ہوکر اپنی قلمی عصمت کو داغدار کریں اور اپنے الفاظ کو ایک طوائف کی طرح ”قلمی کوٹھے ” کی زینت بنائیں جینوئن اہلِ صحافت آئینے کی حیثیت سے گلی کی نکڑ اور چوک چوراہے پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ قوم کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں
Sharif Brothers
آئندہ بھی کرتے رہیں گے جس کا ہمارے حکمران بُرا منا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلام حیدر تھندقاف لیگ میں حبس، گھٹن اور بلا کی گرمی برداشت نہ کرتے ہو ئے مسلم لیگ نون کی چھتری تلے پناہ لینے پر آمادہ ہوئے تھے اور شریف برادران نے ان کی تمام تر سابقہ غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے اُنہیں اپنے پروں کے نیچے چھُپا لیا تھااور ٹکٹ سے نوازا تھا مگر غلام حیدر تھند جس کے سامنے کسی دور میں سانس لینا بھی مشکل ہوتا تھا گزشتہ الیکشن میں ایک ”مظلوم ” عورت کے ہاتھوں سپریم کورٹ میں شکست کھا گئے تھے اور پکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ الیکشن کے دنوں میں جب اُن کا کیس عدالت میں چل رہا تھا تو دوسری طرف اِنہی کے بھائی غلام فرید تھند کا پیسہ براستہ ”مظلوم ” خاتون عدالت میں چل رہا تھا کیونکہ الیکشن کے دنوں میں دونوں بھائیوں میں اِٹ ۔۔۔۔۔۔کا ویر تھا
نوجوان قیادت عابد انوار علوی نے بھی اپنے سا تھیوں کے ساتھ الیکشن میں تھند کے راستے میں ”سپیڈ بریکر ”کا کردار ادا کیاکیونکہ با وثوق ذرائع سے معلوم ہوا تھاکہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے دو مرتبہ ضلع لیہ میں اپنے اُمید واروں کے انٹرویو ز اور مقبولیت کا جائزہ لینے کے لیے ٹیم کو بھیجا اور ٹیم نے ضلع لیہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ، ورکرزاور عوام الناس سے الگ اگ رائے لی تھی اور مرکزی قیادت کو جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اُس میں عابد انوار علوی فیورٹ قرار دیے گئے تھے
مگر ”شریفین والبریفین ”چمک کی مار کھا گئے اور یوں لیہ شہر میں نون لیگ کا ٹکٹ تھند کے پاس چلا گیا تھا یہ تو تھند کے برے دن تھے جو کورٹ کے ذریعے الیکشن سے ایک دن پہلے نا اہل ہو گئے تھے ورنہ لیہ کی بھولی اور سادہ عوام نے تو تہیہ بھی کر لیا تھا کہ حیدر تھند ہی کو جتوانا ہے مگر ایک سازش کے تحت چوہدری اشفاق کو آزاد اُمیدوار شو کرا کے اپنے مخصوص ”طریقہ کار ”کے ذریعے جتوا کر پھر نون لیگ میں شامل کرایا گیا ۔۔۔۔۔۔پیر آف جگی شریف کا شہزادہ جن کا نام بھی بے وضو نہیں لیا جا سکتا کا سیاسی مستقبل بھی خاصہ مخدوش نظر آرہا ہے کیونکہ انہوں نے بھی حلقہ کی غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کے عرصہ میں دنیا کا کوئی صحت افزا ”ٹھنڈا ٹھار ”اور ”دِلبہار ” ملک نہیں چھوڑا جہاں انہوں نے اپنی حاضری نہ لگوائی ہو ۔۔۔۔۔
اُن کے حلقہ کی عوام ”قبلہ پیر ” صاحب کو جگہ جگہ دیوانوں کی طرح ڈھونڈتی رہتی ہے مگر پیر صاحب ہیں کہ اُن کے زمین پر پائوں ٹکتے ہی نہیں ہیں وہ ہر وقت فضا میں محو ِ پرواز رہتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے وہ کوئی ”ہوائی مخلوق’ ہیں ۔۔۔۔ اعجاز اچلانہ کی پوزیشن بھی تھانہ سیاست اور انتقامی جذبے کی وجہ سے نہایت کمزور ہے اور اب اُن کے حلقہ 265سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر اقبال دستی اور تنگوانی مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں سیاسی ویژن ڈاکٹر اقبال دستی کا زیادہ معلوم ہوتا ہے اگر انہوں نے تحریک میں شامل چند ایک مفاد پرست، ابن الوقت اور حاشیہ بردار قسم کے لوگوںکے مشورہ پر عمل نہ کیا اور نیک نیتی کے ساتھ اپنی کاوشوں کو جاری رکھا تو امید کی جا سکتی ہے کہ حلقہ 265 میں تحریک انصاف کے فیورٹ امیدوار ہو سکتے ہیں اور اعجاز احمد اچلانہ کو چا روں شانے چِت گرا سکتے ہیں
مگر ابھی تک وہ بھی لگتا ہے آرام کی نیند سو رہے ہیں اور اب سنا ہے ضلعی صدارت کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ویسے بے لوث ورکر زاہد الرحمن خان فیورٹ اُمیدوار ہیں ، شوکت گجر بھی صدارت کے لیے ٹرائی کر رہے ہیں ضلع لیہ میں اس وقت عمران خان کا جو سرمایہ ہے وہ چند ایک لوگ ہیں جن میں نوجوان لیڈر ظریف خان ، سعید خان پٹھان المعروف سید جان ، زاہد الرحمن ، غفار خان وغیرہ ہیں جو اخلاص ِ نیت سے کام کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
PTI
تحریک انصاف ضلع لیہ کی قیادت اگر اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر یکجہتی کا مظاہرہ کرے تو ضلع لیہ کی عوام کو حیران کن نتائج دیے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔احمد علی اولکھ کا لاڈ پیار اُسی طرح شریف برادران سے بر قرار ہے صاحبزادہ فیض الحسن پیر آف سواگ کافی پریشان ہے اُن کے کام نہیں ہو رہے ہیں، پیر آف سواگ کے سیاسی پارٹنر اطہر مقبول کی ہمدردی اندر کھاتے بہر حال کپتان کے ساتھ ہے اور وہ تحریک انصاف کی قیادت سے کئی مرتبہ رابطہ بھی کر چکے ہیں اور تو اور اِن کا پانچ چھ سال کا بیٹا ضد کر رہا ہے کہ پا پا جی آئندہ الیکشن میںورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کو ووٹ دینا ہے کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ہیں باقی سب سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ اطہر مقبول آنے والے دنوں میں کیا فیصلہ کرتے ہیں ،وہ جھوٹوں کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر حق گوئی کا پرچم تھامے اہلِ حق کا ؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑے بڑے پردھان منتری جو فیلڈ میں پھنے خان بننے میں کوشاں نظر آتے ہیںگھر میں آتے ہی ”جورو ” کی غلامی اور بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
آنے ولے وقتوں میں سردار بہادر خان سیہڑ بھی کسی نئی پارٹی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں ،کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ اب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی ضلع لیہ سے اپنے اُمیدوار کھڑے کریں گے پاکستان عوامی تحریک کا بھی خا صا حلقہ ہے وہ بھی ایک پریشر گروپ کے طور پر سامنے آسکتا ہے چوہدری برادران سے گٹھ جوڑ بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے، آنے والے الیکشن خاصے دلچسپ ہوں گے اور آپ کو ضلع کے ”فصلی ” بٹیرے آنے والے الیکشن میں نہ معلوم کس کی مُنڈیر پر بیٹھے نظر آئیں ۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے عوام با شعور ہو چکے ہیں اور لوٹے لُٹیروں کی اصلیت جانتے ہیں ،ہم بھی اپنے زائچے کے مطابق تیار کیے گئے حقائق اپنے قارئین کے سامنے لاتے رہیں گے ،اگلے شمارہ میں نئے عنوان سے ملاقات ہو گی ، تب تک کے لیے اجازت ، اللہ حافظ!