تحریر: سید انور محمود سابق جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا تو اُنکو اپنی حمایت کرنے والے بہت سارئے اقتدار کے پجاری مل گے۔ سب سے پہلے اُنکے اقتدار کے پجاریوں میں چودھری شجات اور چودھری پرویزالہئ شامل ہوئے۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے پجاریوں میں صرف شخصیات ہی نہ تھی بلکہ سیاسی جماعتیں بھی تھیں۔ مسلم لیگ (ق) کے علاوہ ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل بھی تھیں۔ مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا اور پوری ق لیگ پجاری بنکر مشرف کی فرمانبردار بنی رہی ، ان فرمانبرداروں میں اور دوسرئےبھی بہت سارے شامل تھے۔سابق صدر پرویز مشرف کے فرمانبرداروں میں اُنکے وزیر اطلات نثار میمن اور اُنکی صابزادی ماروی میمن جو اسوقت چیئرپرسن قائمہ کمیٹی اطلاعات قومی اسمبلی بھی شامل تھے، ماروی میمن اسوقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک اہم رہنما ہیں اور وزیراعظم نواز شریف سے بہت قریب ہیں۔ یوتھ بزنس لون پروگرام کی چیئرپرسن مریم نواز کے استعفی کے بعدشاید اُن کے متبادل کے طور پر ماروی میمن اس پروگرام کی چیئرپرسن بن جایں۔
جنرل مشرف کے صدارت سے علیدہ ہوتے ہی اُن کے بہت سارئے فرمانبردار سیاسی لوٹے بن گے۔ اُن میں ق لیگ اور اُسکی قیادت تو آجکل علامہ طاہر القادری کی بی ٹیم بنے ہوئے ہیں، کچھ عمران خان کی پی ٹی آئی میں شامل ہوگے ہیں جبکہ مشرف کے کافی فرمانبرداروں کومشرف کے سخت ترین ذاتی مخالف اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف اپنی کابینہ میں لیے بیٹھے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کو اتنا دکھ کسی کا نہیں ہوا ہوگا جتنا انہیں ماروی میمن کے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کے فیصلے سے ہوا ہو گا، اسلیے کہ سابق صدرپرویزمشرف کے ماروی میمن اور اُن کے والد پر ذاتی طور پر کافی احسانات تھے۔ سابق صدر نے نثار میمن کی اس وقت مدد کی جب انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اپنا ایک گھریلو مسئلہ شیئر کیا تھا کہ کیسے اُن کی بیٹی ماروی میمن کو کراچی سے اپنے خاوند سے علیدگی کے بعد اسلام آباد میں عزت سے رہنے کے لیے ایک نوکری کی ضرورت ہے۔ ایک لاکھ روپے ماہوار اور بے شمار مراعات کے ساتھ ماروی میمن کو فوجی ادارئے آئی ایس پی آر میں جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر نوکری دی گی ۔ آئی ایس پی آر سے فارغ ہونے کے بعد بورڈ آف انویسٹمنٹ میں ایک اچھے عہدئے پر لگادیا گیا۔ صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ سے تعلق ہونے کے باوجود پرویز مشرف نے انہیں پنجاب سے مسلم لیگ (ق) کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بنوایا تھا۔بعد میں 2008ء میں کراچی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔
Pervez Musharraf
اگست 2008ء میں جنرل پرویز مشرف صدارت سے فارغ ہوئے اور پاکستان سے باہر چلے گئے لیکن ماروی میمن کا جنرل مشرف سے دبئی اور برطانیہ میں رابطہ رہا۔میڈیا کےٹاک شوز پروگرام میں وہ ہمیشہ پرویز مشرف کو “صدر مشرف “کہتی تھی۔ ماروی میمن مسلم لیگ (ق) کے میڈیا کے معاملات کی ذمیدار تھیں۔ لیکن 2010ء میں اُنکے مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے اس بنیاد پر اختلاف شروع ہوگے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اوراسلام آباد کی لال مسجد کے ملاوں غازی برادران کو کھلم کھلا دہشت گردکہتی تھیں۔ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت سے چھیاسی سال کی سزا ہوئی تو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ڈاکٹرعافیہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اُسے قوم کی بیٹی قرار دیا لیکن ماروی میمن نے اسوقت سب کو دہلادیا اور کہاکہ “عافیہ قوم کی بیٹی نہیں ہے بلکہ ایک دہشت گرد ہے”۔ اسوقت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغرنے کہا تھا کہ” ماروی میمن جس کو تم دہشت گرد کہہ رہی ہو وہ کل اس اسمبلی میں تماری جگہ ہوگی اور تم اس ایوان سے باہر ہوگی”، جبکہ مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے جعلی ڈگری ہولڈر سابق وزیر تعلیم شیخ اکرم وقاص نے کہا تھا کہ “ماروی میمن کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دہشت گرد کہنے پر مجھے دلی دکھ ہوا ہے، اب یا تو وہ مسلم لیگ (ق) میں رہے گی یا میں”۔ مسلم لیگ (ق)کے رہنما چوہدری شجات بھی ماروی میمن کے ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گرد کہنے پر کافی ناراض تھے، انہوں نے ماروی میمن سے کہا یا تو وہ ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گرد کہنے پر پوری قوم سے معافی مانگے یا پھر مسلم لیگ (ق) اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دئے دے۔ ماروی میمن کا جواب تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور میرئے نزدیک ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی نہیں ہے بلکہ ایک دہشت گرد ہے۔ اُنہوں نے مسلم لیگ (ق) اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دئے دیا۔
اسکے باوجود کہ ماروی میمن مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ چکی تھیں لیکن سابق صدر پرویز مشرف سے اُنکا رابطہ تھا۔ پھر اچانک ان میں ایک تبدیلی آئی اور اُنہوں نے بہت زور شور سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی اس شرط پر حمایت شروع کردی کہ اگر وہ تحریک انصاف میں شامل ہونگی تو تحریک انصاف اُنکوسیکرٹری اطلاعات کا عہدہ دئے گی۔ عمران خان جو خود طالبان کے حامی ہیں اپنے کراچی کے ایک جلسے میں جماعت اسلامی کے بھیجے ہوئے چند لوگوں کے ماروی میمن کے خلاف احتجاج پر گھبراگے اور انہوں نے ماروی میمن کے سامنے یہ شرط رکھی کہ تحریک انصاف میں آنے سے قبل ماروی میمن کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرنی ہوگی جس میں وہ ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گرد کہنے پرمعذرت کریں اور ڈاکٹر عافیہ کے خاندان اور قوم سے معافی مانگیں۔ اسکے باوجود کہ ماروی میمن جو اپنے عزیزوں اور دوستوں کو تحریک انصاف میں سیکریٹری اطلاعات کے عہدئے کا بتاکراُن سے مبارک باد وصول کرچکی تھیں اپنے موقف پر قائم رہیں اورعمران خان کے مطالبے کو مسترد کردیا۔جلدہی نواز شریف کی دعوت پروہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگیں۔ ماروی میمن کو صرف تین سال لگے اپنے محسن پرویز مشرف کی مہربانیاں بھولنے میں اور اُن کے ذاتی دشمن نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملانے میں۔ نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد جب ماروی میمن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا سابق جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ہونا چاہیے؟ ماروی میمن کا جواب تھا۔۔۔۔۔ نو کمنٹس۔
عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے اور 31 اگست کے پی ٹی وی حملے اور ہنگامے کے بعد سے ماروی میمن میڈیا پر تحریک انصاف کے خلاف بہت زور شور سے گرج رہی ہیں، شاید وہ عمران خان سے اپنی اُس بےعزتی کا بدلہ لے رہی ہیں جو عمران خان نے ایک شرط کی شکل میں کی تھی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بنوں کے اسپورٹس کمپلکس میں راشن کی تقسیم کے دوران بد نظمی کے بعد پولیس اور آئی ڈی پیز کے تصادم کے نتیجے میں جب درجنوں آئی ڈی پیز کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا تو ماروی میمن نے بنوں جیل کے باہر کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا، ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے آئی ڈی پیز کو بلا جواز تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں گرفتار کیا لہٰذا ان کی رہائی تک دھرنا جاری رہے گا۔ بعد ازاں پولیس نے گرفتار آئی ڈی پیز کو رہا کردیا جس کے بعد ماروی میمن نے دھرنا ختم کردیا۔ جبکہ عمران خان نے ماروی میمن کے دھرنے کو ڈراما قرار دے دیا اور کہا کہ خیبرپختونخوا چھوٹا صو بہ ہے جبکہ آئی ڈی پیز کی تعداد زیادہ ہے، وفاق کی ذمیداری ہے کہ وہ صوبے کو مزید پولیس فورس اور امداد فراہم کرئے۔
ماروی میمن کے والد نثار میمن جو زمانے کے سرد اور گرم سے گزر چکے ہیں کہتے ہیں کہ میری بیٹی میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ ہر پارٹی میں آسانی سے ایڈجسٹ ہوجاتی ہے۔ ماروی میمن بھی ایک ایسی روایتی سیاستدان نکلیں جن کے پاس نظریات، خیالات یا سیاسی کردار نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو صرف ذاتی مفاد جو کبھی جنرل پرویزمشرف سے پورا کر لیا جاتا ہے اور جب حالات بدلتے ہیں تو وہی مفاد نواز شریف سے بھی پورا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ کل شیخ روحیل اصغر، شیخ اکرم وقاص اور ماروی میمن جو قومی اسمبلی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسلئے پر کہ وہ قوم کی بیٹی ہے یا دہشت گردہے شدید اختلاف رکھتے تھے آج اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اُنکے لیڈر اور ملک کے جائز وزیراعظم ہیں اور عمران خان کا دھرنا اور وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والی ماروی میمن جو کبھی سندھ کے مظلوم طبقات کے مسائل پر احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں شرکت کے علاوہ ٹاک شوز اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں بھی ان مسائل کو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہوتی تھیں، کیا آج اُنکو سندھ کے علاقے تھر میں مرتے ہوئے بچے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماروی میمن خود اور اپنے ن لیگ کے ساتھیوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کی بدعنوان سندھ حکومت کے خلاف ایک بھرپور دھرنا دیتیں ، لیکن شاید وہ ایسا اس لیے نہیں کررہی ہیں کہ یہ نواز شریف اور آصف زرداری کے مک مکا کے خلاف ہوگا۔اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے بنوں میں ماروی میمن کا دھرنا آئی ڈی پیز سے ہمدردی میں نہیں بلکہ سیاسی اسکورنگ کے لیے تھا۔